٭لاہور جانے کیلئے شام کی ریل مصروفیت کی نظر ہو گئی دوسرے دن صبح کی ریل پر میں لاہور جانے کے لیے بیٹھی۔ جہاں سیٹ ملی وہاں سامنے والی سیٹ پر باریش بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ریلوے کا بندہ اور ایک لڑکا تھا۔ میرے ساتھ ایک ماں بیٹی بیٹھی تھیں۔ وہ بزرگ جہلم تک قرآن کی تلاوت کرتے رہے۔ میںاپنی سوچوں میں گم تھی کہ ساتھ والی عورت رونے لگی۔ ان بزرگ نے پوچھا بی بی کیوں رو رہی ہو؟ عورت نے کہا میری بیٹی کو اس کا خاوند مارتا ہے۔ بزرگ نے فرمایا دنیا میں کیاکچھ نہیں ہو رہا۔ ہم لوگ نماز روزے سے غافل ہو گئے ہیں۔ عورت کو سمجھاتے رہے پھر مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے یہ بی بی بھی پریشانی کی حالت میں جارہی ہے۔ کبھی اسے خاوند کا غم ہے، کبھی بہن بھائیوں کی پریشانی۔ اب بھی یہ پریشانی کی حالت میں جا رہی ہے۔ میں حیران ہو گئی کہ میں مخاطب بھی نہیں ہوں پھر مجھے کیوں ایسا کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے میرے والد فوت ہو گئے تھے اور میں پریشانی کی حالت میں بہن بھائیوں کے لیے جا رہی تھی۔ اتنی دیر میں چائے والا آ گیا۔ وہ بزرگ چائے لینے لگے۔ میں نے زبردستی چائے کے پیسے دیئے۔ مجھے کہنے لگے تم سب کے ساتھ مخلص ہو، تمہارے ساتھ کوئی مخلص نہیں رہتا۔ تمہاری پریشانیاں آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گی (انشاءاللہ) مگر ابھی کچھ ٹائم لگے گا۔ پھر کہنے لگے غالباً (10 جنوری1982ءبتایا) یہ میں بھول گئی ہوں کہ روالپنڈی۔ سی۔ ایم۔ ایچ میں میرا آپریشن ہوا جو بریگیڈئیر ڈاکٹر نے کیا۔ نرس کوئی چیز لینے کے لیے گئی۔ اس وقت عصر کا ٹائم تھا میں نے اٹھ کر جسم پر ہاتھ پھیرا اور میری ہر چیز ٹھیک ہو گئی۔ میں نماز پڑھنے لگ گیا نرس جب اندر آئی تو مجھے ایسے دیکھ کر بیہوش ہوگئی۔ یہ واقعہ اخبار میں بھی آیا تھا پھر میڈیکل بورڈ بھی بیٹھا تھا۔یہ خبر میں نے بھی پڑھی تھی۔ پھر مجھے کہنے لگے کل شام کی ریل کار تمہاری مس ہوئی تھی وہ اس لیے کہ تم نے ہمیںملنا تھا ۔پھر انہوں نے بتایا کہ میں نے گولڑہ شریف والے بزرگ کے ساتھ اکٹھے عمل شروع کیا تھا۔ وہ کامیاب ہو گئے لیکن میں ناکام رہا۔اتنی دیر میں لاہور اسٹیشن آ گیا۔ محترم بزرگ نے میرا اور میرے ساتھ والی عورت کا بیگ پکڑ لیا۔ میں نے بہت منع کیا لیکن وہ نہ مانے۔ ریل کار 4 نمبر پلیٹ فارم پر آئی اور ہم نے دو نمبر پلیٹ فارم سے باہر جانا تھا۔ میں نے بیگ پکڑلیا بیگ پکڑنے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا تووہ محترم بزرگ غائب تھے حالانکہ پورا پلیٹ فارم خالی تھا میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ وہ محترم بزرگ کون تھے، کیسے غائب ہو گئے ۔اتنے سال گزرنے کے بعد بھی میں یہ واقعہ بھول نہیں پائی۔
آسیب زدہ مکان (سید اختر علی شاہ، روہڑی)
٭یہ واقعہ میرے والد صاحب (سید انور علی شاہ مرحوم) کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ان کے بقول پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد روزگار کے سلسلے میں میں روہڑی آیا۔ اگرچہ ہم تقسیم سے پہلے لاہور شفٹ ہو چکے تھے۔ مجھے رہائش کا مسئلہ تھا۔ اتفاق سے ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ اسے بھی مکان کی ضرورت تھی۔ اس کا نام شاہد تھا اور مقامی سکول میں ماسٹر تھا۔ ہمیں کسی نے ایک دکاندار کا پتہ بتایا۔ وہ دوکاندار ایک مولوی تھا اور اس کی برف کی دکان تھی۔ دکان کے اوپر دو منزلہ مکان تھا۔ جب ہم نے اس سے اپنا مسئلہ بیان کیا تو اس نے کہا مکان ہے۔ کیا تم لوگ اس میں رہ لو گے؟ ہمیں کچھ تعجب ہوا ۔پھر ہم نے کرائے کی بات کی تو کہنے لگا کرایہ وغیرہ کچھ نہیں بس تم رہنے کی کرو۔ ہم دونوں نے خیال کیا کہ شاید یہ کچھ پاگل ہے۔ بہرحال ہمارے پاس جو تھوڑا بہت سامان تھا اسے لیا اور اوپر مکان کی پہلی منزل میں ایک کمرے میں رکھ دیا۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو ایسے لگا کہ جیسے کوئی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اتر رہا ہے اور پھر چڑھ رہا ہے۔ ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد پھر ویسا ہی ہوا۔ ہم دونوں اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شاہد دروازے کے پاس تھا اور میں اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر، اچانک دروازہ کھلا اور ایک عورت داخل ہوئی اس نے اپنا پنجہ شاہد کے سر پر مارا اور اس کے بال اپنی مٹھی میںلے لیے۔ شاہد نے فوراً سیڑھیوں سے چھلانگ لگا دی اور میں نے بھی اس کے پیچھے چھلانگ لگادی۔ شاہد کے دواگلے دانت ٹوٹ گئے اور کچھ چوٹیں مجھے بھی آئیں۔ اس کے سر کے بال پھر کبھی نہیں آئے۔ ساری رات ہم نے نیچے بازار میں گزاری۔ جب صبح کو مولوی آیا تو ہم اس پر خاصے ناراض ہوئے۔ اس نے کہا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔ ہم نے کہا کہ اگر تم سیدھی بات بتا دیتے تو کیا ہوتا۔ یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 002
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں