حدیث شریف کا مفہوم ہے جس کو دعا مانگنے کی توفیق مل گئی گویہ رحمت کے دروازے اس کے لیے کھول دیے گئے۔
1۔ حضرت مفتی زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بھائی دعا الفاظ پڑھنے کا نام نہیں، دل کے جذبے کا نام ہے۔
2۔ ایک شخص حرم شریف کا غلاف پکڑ کر دعا مانگ رہا تھا، اے اللہ !مجھے میری بینائی لوٹا دے۔ حجاج کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ مستقل دعا مانگ رہا ہے لیکن اس کی بینائی نہیں لوٹی۔ تو اس کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے شخص میرا نام حجاج بن یوسف ہے۔ میں اگلے چکر سے واپس آ رہا ہوں اگر تیری بینائی نہیں آئی تو تیری گردن اڑا دوں گا۔ وہ شخص اب صدق دل سے آہ و زاری کرنے لگا۔ اے اللہ! اب تو بینائی دے دے ورنہ یہ ظالم گردن اڑا دے گا۔ اب جب حجاج واپس آیا تو اللہ پاک نے اس کی بینائی اپنی رحمت سے لوٹا دی تھی۔ دعا کے سلسلے میں ہمارے حضرت اکثر فرماتے ہیں کہ اللہ پاک سے دعاﺅں کے ذریعے اپنے مسائل حل کراﺅ اور لمبی لمبی دعائیں مانگنے کی عادت اپناﺅ۔ میں نے اپنے حضرت والا سے اکثر یہ بات سنی ہے کہ نماز اور دعا مومن کے بہت بڑے ہتھیار ہیں اور حضرت فرماتے ہیں کہ جب کوئی گناہ چھوڑے اور نفس پر گراں گزرے تو اس وقت دعا مانگو100% قبول ہوگی۔ (امتیاز حیدر، کراچی)
تقدیرکے کھیل نرالے ( شیرعالم ، ملتان)
یہ 1947ءکا بالکل سچا واقعہ یہ میری والدہ صاحبہ اکثر ہمیں سنایا کرتی تھیں۔ فاطمہ کی شادی ظفر کے ساتھ انجام پائی۔ دونوں میاں بیوی میں بہت محبت تھی۔ لوگ ان کی خوشگوار زندگی کو دیکھ کر رشک کرتے تھے۔ دن رات خوشگوار گزرتے گئے اس دوران فاطمہ کو بچے کی ولادت کے لیے دہلی جانا پڑا۔ چونکہ پارٹیشن سے پہلے کا زمانہ تھا ظفر جھنگ میں رہائش پذیر تھا۔ جب فاطمہ وہاں پہنچی تو پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب کچھ حالات سدھرے تو ظفر نے ہر جگہ بیوی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن پتہ لگا کہ سکھوں نے گھر کو آگ لگا دی۔ پتہ نہیں ان کا گھرانہ بچا یا نہ بچا۔ ظفر پاگلوں کی طرح خیموں میں بھاگتا رہا۔ مگر کہیں سراغ نہ ملا۔ ایک دن اچانک ایک کیمپ میں اس نے اپنی سالی عائشہ کو دیکھ لیا۔ وہ دیوانہ وار اس کے پاس پہنچا۔ عائشہ نے بھی یہی بتایا کہ گھر کو سکھوں نے آگ لگا دی تھی۔ میں کسی طرح بچ نکلی اور اس طرح پاک فوج کے جوان مجھے یہاں لے کر آئے۔ اس نے عائشہ کو تسلی دی اور اسے لے کر گھر آگیا۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ فاطمہ اور اس کے گھروالوں کا کوئی پتہ نہ لگا۔ ادھر محلے والوں نے باتیں کرنا شروع کر دیں کہ اس نے سالی کو کیوں رکھا ہے۔ شادی کرے یا اس کی شادی کرا دے۔ آخر گھر والوں کے اصرار پر ظفر نے عائشہ سے شادی کرلی۔ 4 سال کا عرصہ گزرا۔ ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ زندگی کا سفر پر سکون تھا۔ اب ظفر بھی خوش ہو گیا تھا۔ ایک دن رات کے ایک بجے دروازہ کھٹکا۔ ظفر اٹھ کر گیا۔ جب دروازہ کھولا تو دیکھا فاطمہ کھڑی تھی۔ وہ حیران اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے پاگل ہو رہا تھا ۔اب بھی وہ فاطمہ سے اسی طرح محبت کرتا تھا۔ فاطمہ آگئی اور عائشہ کو دیکھ کر کہ اب یہ ظفر کی بیوی ہے، اسے بہت دھچکا لگا۔ بعد میں ظفرنے بتایا کہ حالات سے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ کچھ دن گزرے محلے والوں نے ظفر پر زور دینا شروع کر دیا کہ دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔ ایک کو طلاق دینی ہوگی۔ ظفر سخت پریشان۔ اُدھر عائشہ کے بچے ،ادھر فاطمہ کی محبت۔ اس کی اذیتوں کی درد ناک داستان۔ ساری رات وہ جاگتا رہتا۔ آخر محبت جیت گئی ظفر نے صبح اعلان کر دیا کہ عائشہ کو طلاق دے گا۔ عائشہ طلاق کے بعد بچوں کو لے کر علیحدہ رہے گی اور اس کا خرچہ میں اٹھاﺅں گا۔ ظفر نے فیصلہ کیا لیکن تقدیر اس فیصلے پر مسکرا رہی تھی۔ تقدیر کے آگے انسان بے بس ہے۔ جب فاطمہ کو پتہ چلا تو اس نے فوراً ظفر کو بلایا اور اسے کہا کہ میں اپنی چھوٹی بہن کا گھر نہیں اجاڑوں گی۔ میں نے توپہلے زمانے کے بہت ستم سہے ہیں۔ ایک ستم اور سہی۔ اس نے ظفر سے کہا اگر اس نے ایسا نہ کیا وہ خود کشی کرلے گی۔ آخر بڑی مشکل سے ظفر نے فاطمہ کو طلاق دی۔ اب طلاق کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ اب فاطمہ کہاں جائے۔ ظفر کے گھر رہ نہیں سکتی اور کوئی ہے نہیں تھا۔ ظفر کا دوست اقبال، جس کی بیوی مر چکی تھی ،ان کے گھر بہت آنا جانا تھا۔ اس نے ظفر سے فاطمہ کے رشتہ کی بات کی سب کے اصرار پر آخر فاطمہ مان گئی ۔ظفر نے خوب جہیز دیا۔ جب رخصتی کا وقت آیا اورفاطمہ دلہن بن کر سامنے آئی تو اسے اپنا وہ وقت یاد آ گیاکہ جب وہ اس کی دلہن بن کر آئی تھی۔ ایک چکر آیا اور ظفر بے ہوش ہو کر گر گیا۔ (تقدیر نے اپنا کھیل دکھا دیا)
معافی کے کمالات (اعراف احمد، لاہور)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی شخص کے بدن کو صدمہ پہنچایا جائے اور وہ صدمہ پہنچانے والے کو معاف کر دے اور قصاص نہ لے تو حق تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے (ابن ماجہ) اور فرمایا کہ جب کسی شخص پر ظلم کیا جائے اور وہ (ناتوانی و بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض) رضائے الٰہی کیلئے اس ظلم کو (برداشت کرکے اس) سے چشم پوشی کرے تو حق تعالیٰ مظلوم کو اپنی قوی نُصرت و امداد سے مویدّ فرماتا ہے اور جو کوئی (رشتہ داروں اور مسکینوں سے) حسن سلوک کرنے کی غرض سے عطا و بخشش کا دروازہ کھولتا ہے حق تعالیٰ اس کے مال و دولت میں ترقی دیتا ہے اور جو کوئی گدائی کے ذریعے سے افزائش مال کا قصد کرتا ہے، خدائے عزیز اس سوال کی نحوست سے اس کے مال میں کمی کر دیتا ہے۔ (مشکوٰة بحوالہ احمد)
اور فرمایا صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی اور جو کوئی جتنا زیادہ عفو و درگزر کا خوگر ہو، اللہ تعالیٰ اسی قدر زیادہ اس کی عزت بڑھاتاہے اور جو کوئی اللہ کیلئے تواضع و خاکساری کا شیوہ اختیار کرے حق تعالیٰ اس کے درجے بلند کرتا ہے( مسلم و ترمذی)
غیرمسلموں سے درگزر کرنے کا فرمان اور عفو و درگزر کرنے کا حکم کچھ اہل ایمان کے حق میں مخصوص نہیں بلکہ ہم غیر مسلموں سے بھی یہی برتاﺅ برتنے کے مامور ہیں چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اہل ایمان سے کہہ دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کیا کریں جو خدا کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم (مسلمانوں) کو ان کے اعمال حسنہ کا صلہ دے۔اللہ کے معاملات اُخرویہ کا یقین نہ رکھنے والے غیر مسلم ہیں جنہیں آخرت کا انکار ہے پس اہل ایمان کو ان کے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کا نعم البدل اور مخالفوں کو ان کے کفر و معاصی کی سزا دی جائے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں