Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچوں کا صفحہ

ماہنامہ عبقری - فروری 2010ء

دیانتداری کا انوکھا انعام ....(محمد زبیر قلندر، مظفر گڑھ) وہ دسمبر کی سرد رات تھی۔ باہر ہو کا عالم تھا۔ ویسے تو جاڑے کی شامیں بہت خاموش اور لمبی لمبی ہوتی ہیں۔ ایسے موسم میں لحاف میں دبک کے کوئی ناول یا افسانہ پڑھنا میرا دلچسپ مشغلہ تھا۔ مگر آج کی رات میں ان تمام باتوں سے بے نیاز دل لگا کر پڑھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ کل میرا دسمبر کا انگلش ٹیسٹ تھا۔ ابھی چند دن قبل ابا جان کی بیماری کی وجہ سے میں پوری طرح ٹیسٹ کی تیاری پر توجہ نہ دے پایا تھا۔ آج میری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پوری کتاب کی ایک بار دہرائی کر لوں۔ مگر گوری گوری رنگ اور گہری نیلی آنکھوں والی بلی جسے میں پیار سے مانو بلاتا ہوں۔ وہ مجھے تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔ اس کے تھوڑے سے کھٹکے سے میرا دل دھڑک اٹھتا۔ ہم چند ہفتے قبل اس کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے تھے اور میں تو ہوں بھی سدا کا ڈرپوک۔ ساڑھے گیارہ بجے نیند مجھ پر غالب آنے لگی، تو میں نے تپائی پر رکھے تھرماس سے چائے نکالی اور مزے لے کر اس کی چسکیاں لینے لگا۔ مانو نے یوں مجھے فارغ دیکھا تو، اس کی شوخیوں میں اضافہ ہوگیا۔ میں نے سوچا، یہ تو بار بار میری پڑھائی میں رخنہ ڈالے جارہی ہے، کیوں نہ اسے مصروف کردوں۔ چائے ختم کرکے میں اٹھا اور جا کر صحن کے پچھواڑے والے لان کی جانب کھڑکی کھول دی۔ چودھویں رات کے چاند کے سنگ مدہم روشنی میں نیم اور جامن کے درخت بہت بھلے لگ رہے تھے۔ کچھ دیر تک میں اس ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں کھویا رہا۔ ہوش آنے پر میں نے ربڑ کی گیند اٹھا کر صحن میں اگی بڑی بڑی جاڑیوں کی جانب پھینکی اور سیٹی بجا کے مانو کو اسے اٹھانے کا اشارہ دیا۔ مانو اچھلتی کودتی تیزی سے کھڑکی کی جانب لپکی اور گیند ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئی۔ میں مسکرا کے دوبارہ پڑھنے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد مانو نے گیند ڈھونڈ کے میرے سامنے لڑھکا دی۔ میں نے دوبارہ گیند کو جھاڑیوں کی جانب اچھالا، وہ فوراً اسے لڑھکاتی ہوئی لے آئی۔ اب کی بار میں نے گیند ذرا دور پھینکی ،کتنی دیر وہ اسے ڈھونڈتی رہی، کبھی زمین میں پنجے مارتی، تو کبھی جھاڑیوں پہ جھپٹتی۔ ایک بجے تک میں نے اپنے بچے ہوئے دو باب کی دہرائی مکمل کر لی تھی۔ سامنے مانو کو دیکھا، جو شدید غصے کے عالم میں گیند ڈھونڈنے میںمصروف تھی۔ میرے چہرے پر دبی سی مسکراہٹ چھا گئی۔ بے اختیار میرے ہاتھ تھرماس کی جانب بڑے۔ میں نے بچی ہوئی چائے پیالے میں انڈیلی۔ سامنے دوسرے کمرے میں اماں ابا پرسکون گہری نیند سو رہے تھے۔ ایک نظر ان پر ڈال کر میں نے سوچا، اب مجھے بھی سو جانا چاہیے۔ سومانو کو بلایا۔ اس نے میری سیٹی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنے کام میں مگن رہی۔ کتنی دیر بیٹھا میں مانو کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ادھر مانو نے گیند کے بغیر نہ آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مجھے غصہ آگیا۔ اس کی کوششوںمیں مزید تیزی آگئی۔ چند منٹ بعد مانو اچھلتی کودتی گیند لڑھکاتی آرہی تھی۔ میں ناراض ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ آئی اور اس نے گیند میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے ایک نظر گیند پر ڈالی۔ اسے دیکھ کر میں حیران سرگرداں رہ گیا۔ آہستہ آہستہ گیند کے قریب گیا اور اٹھا کے دیکھا، یہ وہ گیند نہیں تھی، بلکہ سونے کی بنی تھی اوراس گیند پر کسی کا نام کھرچ کے لکھا گیا تھا۔ مارے حیرت کے میر ے پسینے چھوٹ گئے۔ ادھر مانو نے فخر سے مجھے دیکھا۔ میں نے ایک گہری نظر گیند پر ڈالی جس پر لقمانی کا نام درج تھا۔ کتنی دیر میں اسے اٹھائے دیکھتا رہا۔ کبھی الٹ پلٹ کرتا، تو کبھی کپڑے کی مدد سے رگڑنے لگ جاتا۔ تھوڑی سی رگڑ سے اس کی چمک میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ مانو کچھ دیر انتظار کرتی رہی کہ میں اسے دوبارہ جھاڑیوں میں پھینکوں۔ تنگ آکر اس نے کھڑکی کی جانب چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں میں چلی گئی۔ میں گیند اٹھائے خیالوں ہی خیالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب بالکل اس جیسی ایک اور گیند مانو لے آئی۔ اب تو میری سٹی گم ہو چکی تھی۔ میں نے دروازے کی کنڈی گرائی اور لان کے پچھواڑے چلا آیا۔ مانو دو قدم مجھ سے آگے آگے دوڑنے لگی۔ جھاڑیوں کے عین درمیان پہنچ کر وہ رک گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چلا آیا۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں پوری جھاڑیاں نمایاں نظر آنے لگیں۔ نیچے ایک طرف تھوڑی سی زمین کھدی نظر آئی۔ لمبی چھلانگ بھر کے میں اس جانب بڑھا۔ وہاں ایک زنگ آلود صندوقچی زمین میں دبی پڑی تھی۔ سامنے ڈھکن پر بڑا سا سوراخ تھا، شاید مانو نے یہیں سے گیندیں نکالی تھیں۔ چند منٹ کی تگ ودو کے بعد میں وہ صندوق نکالنے میںکامیاب ہوگیا۔ ایک جھٹکے سے اس کا ڈھکن ٹوٹ کے علیحدہ ہوگیا اور اس میں موجود سونے کی گیندیں جگمگانے لگیں۔ ”ارے واہ! یہ تو جیسے کوئی جاسوسی ناول شروع ہوگیا ہے۔“ پھر اس کو اٹھا کے اپنے کمرے میں لے آیا۔ اس میں موجود گیندوں کو گنا تو وہ کل چودہ تھیں۔ میں نے بڑی احتیاط سے انہیں اپنی الماری میں منتقل کرکے تالا لگا دیا ۔ خوشی کے بھرپور احساس کے ساتھ میں بستر پر سونے کی ناکام کو شش کرنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے خوب صورت عالی شان بنی بنائی کوٹھی آجاتی۔ تصور ہی تصور میں اباجی کا علاج مہنگے ترین ہسپتال میں ہو رہا ہوتا یا پھر میری انگلیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ناچ رہی ہوتیں۔وہ کمپیوٹر جسے خریدنے کیلئے ہمارے گھریلو حالات اجازت نہ دیتے۔ غرض ان سے بھی زیادہ حسین سپنوں میں کھوتے کھوتے میں نیند کی وادی میں چلا گیا۔ اس واقعے کو چھ دن گزر چکے تھے۔ مگر میری سمجھ میں ابھی تک نہ آرہا تھا کہ ان گیندوں کو کیسے استعمال میں لاﺅں۔ اباجی کو بتانے کی ہمت نہ تھی اور میرے اپنے ذہن میں کوئی ایسا خیال نہ تھا۔ خیر بڑی سوچ بچار کے بعد میں ایک فیصلہ کرکے مطمئن ہو گیا اور میری بے چینی ہوا ہوگئی، جو چند دنوں سے مجھے پریشان کیے ہوئے تھی۔ دوسری دن سکول جانے کے بجائے میرا رخ شہر کے قریبی تھانے کی طرف تھا جہاں کے انسپکٹر ریحان میرے ماموں کے بہترین دوست ہیں۔ اندر پہنچ کر میں نے انسپکٹر ریحان کے سامنے بستے سے وہ ساری گیندیں نکال کے رکھ دیں اور دھیرے دھیرے پوری تفصیلات بتانے لگا۔ انہوں نے نہایت خاموشی اور پوری یکسوئی سے میری گفتگو سنی۔ میری بات کے اختتام پر انہوں نے اٹھ کر میرا کندھا تھپکایا اور مسکرا کے بولے۔ ”حماد مجھے نہیں، بلکہ پوری قوم کو آپ جیسے دیانت دار لڑکوںکی ضرورت ہے۔ میں بہت جلد خان نعمانی کا پتا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انشاءاللہ آپ کی یہ امانت ان تک پہنچ جائے گی۔“میں شکریہ ادا کرکے باہر نکل آیا۔ گھنٹی کی آواز سن کر میں باہرنکلا۔ انسپکٹر ریحان کو مسکراتے دیکھ کر جواباً میں بھی مسکرا دیا۔ میں نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا۔ اس دوران اباجی بھی آچکے تھے۔ چائے پینے کے بعد وہ اصل بات کی جانب آئے۔ جب کہ میں آگے کی صورتحال جاننے کیلئے سخت بے چین تھا۔ پہلے تو انہوں نے اباجی کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا، کیونکہ وہ ابھی تک اس واقعے سے لاعلم تھے۔اباجی نے ان کی باتیں سن کر ایک تیز نگاہ مجھ پر ڈالی۔ میں نے شرمندگی کے مارے سر جھکا لیا۔ اب انسپکٹر ریحان گویا ہوئے۔ ”حماد تمہارے جانے کے بعد میںنے کئی سال پہلے کی رپورٹوں کے رجسٹر چیک کیے۔ اسی میں اتفاقاً نعمانی صاحب کی ایف آئی آر مل گئی، ورنہ مجھے سوفیصد امید نہیں تھی۔ ہاں تو انہوں نے ایف آئی آر اپنی گیندوں کے چوری ہونے پر نامعلوم افراد کے خلاف کٹوائی تھی۔ انہی میں ان کا پتا بھی درج تھا۔ خیر بڑی مشکلوں سے میں ان تک پہنچا، کیونکہ لکھے گئے پتے کی بجائے اب وہ دوسرے شہر میں رہائش پذیر ہیں۔جب میںان تک پہنچا اور انہیں آپ کی امانت لوٹائی تو وہ سفید بھنوئیں اچکا کے مجھے یوں دیکھنے لگے، گویا کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ جب انہیں اچھی طرح یقین ہو گیا کہ یہ حقیقت ہے، تب وہ بہت خوش ہوئے۔ انہیں شدید حیرت ہوئی کہ 10سال پہلے کی گمشدہ گیندیں ان تک واپس کیسے پہنچ گئیں۔ جب انہیں پوری کہانی سنائی گئی تب وہ آپ کے بارے میں جان کے اور زیادہ خوش ہوئے۔ بہت جلد وہ انعام سمیت آپ کے گھر شکریہ ادا کرنے آئیں گے۔ اب رہ گئی بات کہ گیندیں اس گھر میں کیسے آئیں، تو یہ بھی سن لیں۔ دس سال پہلے کی بات ہے کہ اسی گھر میں ایک فیملی آکر کرائے پر رہ رہی تھی۔ انہی میں ایک لڑکا چوریاں بھی کرتا تھا۔ سو اس نے کسی طرح سیٹھ نعمانی احمد کی گیندیں چرائیں اور لاکر جلدی سے صحن میں دبا دیں۔ اس کے بعد اسے وہاں سے اٹھانے کا موقع نہ ملا کیونکہ ایک اور واردات میں وہ پولیس مقابلے میںمارا گیا۔ چند دنوں بعد اس کی فیملی یہ کرائے کا گھر چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی۔ یوں یہ مکان ایک مدت ویران پڑا رہا کیونکہ اس کا مالک بھی کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا تھا۔ اب جب کہ کچھ عرصہ قبل مالک مکان کا بیٹا یہیں پاکستان رہنے آیا، تو اس نے اس کی مرمت کرا کے کرائے پر چڑھا دیا۔ سو آپ کے اس گھر میںآنے کی وجہ سے قدرتی طور پر گیندیں آپ کو مل گئیں۔ انسپکٹر ریحان نے پوری وضاحت کے ساتھ سب کچھ بیان کر دیا۔ اباجی نے یوں سر ہلایا جیسے پوری طرح بات سمجھ میں آگئی ہو۔ ”اور ہاں حماد“ وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ ادھر میری سانس اٹک کے رہ گئی، دل دھڑکنا بھول گیا۔ اللہ جانے وہ کیا کہنے والے تھے، میں نے فوراً سر اٹھا کے ان کی جانب دیکھا۔ پھر وہ یوں گویا ہوئے۔ ”جب ہمارے آفیسر کو تمہاری ایمان داری کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے انعام میں کیا دیا۔“ وہ سوالیہ انداز میں بولے۔ ”کیا دیا ہے؟“ میں نے ان کا جملہ دہرایا۔ ”ایک عدد کمپیوٹر، جو باہر میری گاڑی میںموجود ہے، آﺅ میں تمہیں ابھی دے دوں۔“ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کمپیوٹر دیتے وقت انہوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا: ”حماد بیٹا، یہ کمپیوٹر ہماری جانب سے آپ کیلئے امانت ہے اور مجھے امید ہے تم اسکو ہمیشہ درست کام میں استعمال کرو گے، نہ کہ غلط میں؟“٬”انشاءاللہ سر میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا“۔ میں نے سعادت مند انداز میں کہا۔ گھر آکر دیکھا کہ اماں ابا کی نظریں شکر سے اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ شاید انہیں پہلی بار اپنے بیٹے پر اتنا فخر محسوس ہوا ہوگا۔ سامنے شیلف پر نخرے سے بیٹھی مانو کو دیکھ کر مجھے بے تحاشہ اس پر پیار آنے لگا۔ مگر نہیں، ابھی تو مجھے اپنے پیارے اللہ جل شانہ کا شکر بھی تو ادا کرنا تھا۔ جس نے مجھے اتنی بڑی آزمائش میں ڈال کے ثابت قدم رکھا تھا۔ سو یہ خیال آتے ہی میں نے سر پر ٹوپی جمائی اور بے اختیار میرے قدم مسجد کی جانب اٹھنے لگے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 300 reviews.