کیا ہوتا ہے زندگی میں ایسا بھی کبھی
ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کا انتخاب۔ نام اور جگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔ اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کرانا چاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں۔
ایڈیٹر صاحب السلام علیکم! کے بعد عرض ہے میری شادی کو تقریباً 34 سال ہو گئے ہیں۔ شادی کے پہلے دن ہی میرے شوہر نے میری انگوٹھی بیچ کر اپنا قرضہ ادا کر دیا‘ نہایت لالچی قسم کا شخص ہے۔ شادی کے پہلے دن شوہر تحفہ دیتا ہے‘ نہ کہ چیزیں لے کر بیچ دیتا ہے‘ ماں نے جب بھی پوچھا انگوٹھی کہاں ہے جواب دیا کہ پڑی ہوئی ہے وہ میرا چھپانا میرے لئے سزا بن گیا‘ ماں باپ کی طرف سے شادی سے پہلے جو جیب خرچ ملتا تھاوہ شادی کے بعد بھی ملتا رہا اور شوہر لے کر کھاتا رہا۔ میرے باپ نے اپنے تعلق سے ملازمت لگوا کر دی‘ کلرک بھرتی ہوا‘ پولیس کے محکمے میں لیکن گھر کا خرچ کبھی خوش ہو کر نہ دیا۔ ماں باپ سے سردیوں کے دو سوٹ مل جاتے‘ دو گرمیوں کے‘ گزارہ ہوتا رہا۔ بچوں میں پہلے تین بیٹیاں ہوئیں پھر میں نے اللہ سے منت مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا دیں میں اس کا نام محمد زمان رکھوں گی۔ اللہ نے میری سنی اور بیٹا ہوا‘ بیٹے کے بعد ایک بیٹی‘ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا اللہ نے دیا جس میں ایک بیٹی اللہ نے اپنے پاس واپس لے لی میں نے اپنا زیور بیچ کر بچوں کو تعلیم دلائی کیونکہ باپ نے تو ان کو کپڑے لے کر نہیں دیئے اور نہ ہی جوتے۔ اپنی آنٹیوں کے دیئے ہوئے کپڑے جوتے پہن کر بچے جوان ہو گئے۔ بیٹا اپنے چاچو کے کپڑے چھوٹے کروا کر پہنتا رہا۔ میں سوچتی کبھی تو باپ کو خیال آئے گا باپ کو جب تنخواہ ملنی ہوتی ایک دن پہلے گھر میں بہانہ بنا کر لڑائی کر لیتا‘ گندی گندی گالیاں اور یہ کہ میں نے قرضہ دینا ہے ۔ شادی کے پہلے دن سے آج تک قرضہ نہیں اترا۔ زیور بیچ بیچ کر بچوں کو پڑھایا کہ کبھی تو ان کی نوکری لگ جائے گی اور اپنی خواہش پوری کر لیں گے ۔ آخر میرا سارا زیور ختم ہو گیا۔ بچوں کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کی نوکری لگی ایک بیٹی کو ایم اے‘ ایم ایڈ کروایا۔ دوسری کو ایم کام‘ بیٹا اور بیٹی پڑھتے ہیں تھرڈایئرمیں۔ کہاں سے ان کی ضروریات پور ی کروں کیونکہ باپ کہتا ہے اندھے ہو‘ محتاج ہو۔ اتنی گندی اور غلیظ گالیاں دیتا ہے دل کرتا ہے طلاق لے لوں پھر بیٹیاں نظر آتی ہیں‘ اپنے ہمسائیوں سے بھی شرم آتی ہے ۔ جسم بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ کبھی بواسیر‘ کبھی بلڈپریشر ہائی اب تو لگتا ہے پاگل ہو جاﺅں گی۔ میرا شوہر غیرت مند اتنا ہے کہ بیٹیوں کو بھی کہتا ہے اپنا کماﺅ‘ میرے پاس آخری زیور بچا ہوا تھا ایک تو سنار نے بہت بے ایمانی کی‘ سونا چھپا لیا اور 19000 دیئے جو کہ میں نے چھپا کے رکھ لئے۔ بیٹے اور اس کی چھوٹی بہن کی فیس دو سال تک دیتی رہی۔ کبھی نہ پوچھا کہ پیسے کہاں سے آرہے ہیں‘ آخر جب میرے پاس پیسے ختم ہو گئے میں نے کہا ایک دن بھی نہیں سوچا کہ اس کے پاس کہاں سے پیسے آ رہے ہیں۔ پلیز میری بیٹیوں کے رشتوں کےلئے بھی دعا کریں کیونکہ ہمارے گھر کے حالات بہت خراب ہیں کوئی ہمارے گھر میں نہیں آتا اور میرے اپنے بھائی اور دیورلاکھوں پتی ہیں۔ میرے بھائی کہتے ہیں جب باپ نہیں سوچتا جس کا حق ہے ‘ خرچ نہیں دیتا تو ہم کیا کریں۔ میرے بھائی کی 8 ہزار تنخواہ ہے لیکن میرے بیٹے نے فون کیا کہ ماموں دو ہزار میری فیس کےلئے تودے دیں ماموں نے آگے سے جواب دیا میرے پاس نہیں ہیں۔ ہمارے خود کے خرچ پورے نہیں ہوتے میں نے بیٹے کو کہا بیٹا اللہ سے مانگو وہ پھر بھی دیتا ہے میرے بیٹے کےلئے بھی دعا کریں اللہ اس کا نصیب روشن بنائے( آمین) ا ب میرا شوہر نہ تو گھر کا خرچ دیتا ہے اور نہ ہی بچوں کی فیس‘ میری بیٹی آمنہ جس نے ایم کام کیا ہوا ہے اس کی ایک بار نوکری کے آڈر آئے تھے نیوی میں‘ ہم نے استخارہ کروایا کہ اتنی دور بیٹی کو بھیجیں ‘ جواب ملا کہ نہ بھیجیں‘ ہم نے اس کووہاں نہیں بھیجا میری بڑی بیٹی جس کا نام عائشہ ہے سکول ٹیچر کےلئے درخواست دے رکھی ہے ۔ میرا شوہر ٹھیک ہو جائے ‘ گھر میں خرچ دے ورنہ بچوں کی تعلیم درمیان میں رک جائے گی۔ میرے شوہر کی جو اتنی غلیظ زبان ہے یہ ختم ہو جائے۔ بیٹیوں سے محبت کرے۔ جب تک میری صحت ٹھیک تھی کپڑوں پر کڑھائی کرتی رہی اب نگاہ اتنی کمزور ہو گئی ہے عینک سے بھی مشکل سے نظر آتا ہے اور میرا باپ اتنی نفرت کرنے لگا ہے وہ باپ جو اپنے منہ کا نوالہ بھی ہمارے منہ میں دیتا تھا پتہ نہیں ہماری بھابھیوں نے کوئی عمل کرائے ہیں یااللہ کی طرف سے ہے جب ہم جاتے ہیں تو ہم سے منہ پھیر لیتا ہے اور اپنے پوتوں کے استنجے بھی کراتا ہے‘ بہو کو کپڑے دھو کر دیتا ہے اور ہمارے حصے کی جو جائیداد تھی وہ بھی اسی بہو کو دے دی ہے۔ اس کا کہنا ہے میں اپنی زندگی میں تمہیں اس لئے دے رہا ہوں تاکہ بعد میں تمہیں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ماں باپ کی جائیداد میں بیٹی کا حصہ تو شریعت بھی معاف نہیں کرتی۔ میر ا باپ کہتا ہے کہ جو جہیز دیا ہے وہ اپنا حق لے چکی ہے۔ میری ماں پر بھی میرا باپ ظلم کرتا ہے اور اپنی بہو کو اہمیت دیتا تھا‘ جس کا اثر لیتے لیتے آخر میری ماں پاگل ہو گئی ہے۔ جو عورت پانچ وقت نماز ‘ قرآن شریف کی پابند تھی اس انتظار میں ہوتی تھی کب اذان ہو‘ کب نماز پڑھوں آج وہ عورت دوسروں کی محتاج ہے۔ جس عورت کی آواز کسی نامحرم نے نہیں سنی تھی وہ عورت آج گھر سے باہر نکل جاتی ہے اور آج بھی اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے اسے ڈانٹ دے گا تو پیشاب شلوار میں خارج ہو جائے گا پھر کہے گا مرتی نہیں ہے‘ کبھی کہتا ہے اسے پاگل خانے ڈال آتے ہیں‘ کھانا نہیں دیا جاتا کہ کہیں پیشاب نہ کر دے۔ کبھی کہتا ہے اس کو زہر کا ٹیکہ لگواتے ہیں ہمیں لگتا ہے کبھی نہ کبھی ضرور کچھ کرے گا۔ ہم بیٹیاں جائیں تو کہتا ہے کھانے کےلئے آگئی ہیں ‘ اپنے گھر کا خرچ بچانے کےلئے ہم یہاں سمبٹریال میں رہتے ہیں اور وہ نوشہرہ میری ماں کے والد صاحب نے میرے باپ کو پڑھوایا لکھوایا زمین دی آج وہ شوہر اس پر اتنے ظلم کرتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری ماں کو اس دنیا سے اٹھا لے۔ بھائی اپنی بیویوں میں مست ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ ماں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ دونوں بھائیوں کی بیویاں ہمارے باپ کی رشتہ دار ہیں اس لئے ان کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارا باپ ایئرفورس میں تھا تو گھر کا نظام اچھا چل رہا تھا جب سے ریٹائر ہوا ہے گھر کو جیل خانہ ‘ بیٹیاں اور نواسے مجرم ‘مجھ سے کچھ زیادہ خار کھاتا ہے کیونکہ میری حالت اور بہنوں سے زیادہ خراب ہے۔ ایڈیٹر صاحب قلم نہیں رک رہا۔ میری ٹانگیں بہت موٹی‘ سوجی ہوئی ہیں ورم ہے اور درد بھی بہت ہوتا ہے۔ کمر میں بھی بہت درد ہوتا ہے۔ اس کا نسخہ بتا دیں۔
(ایک پریشان بہن)
(قارئین الجھی زندگی کا سلگتا خط آپ نے پڑھا‘ یقینا آپ دکھی ہوئے ہونگے۔ پھر آپ خود ہی جواب دیں کہ اس دکھ کا مداوا کیا ہے؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں