رنگوں کا انسانی زندگی پر بڑا عمل دخل ہے بلکہ رنگوں کے اثرات ہر قسم کے جانداروں میں دیکھنے میں آتے ہیں جن میں پودے اور جانور بھی شامل ہیں۔ پودے اور جانور بھی مختلف رنگوں میں مختلف تاثرات ظاہر کرتے ہیں۔ قدرتی رنگ صرف تین ہیں۔ نیلا‘ پیلا اور سرخ باقی رنگ انہی رنگوں کے امتزاج سے بنتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کپڑے رنگنے والے رنگریز بار بار رنگ والا پانی تبدیل نہیں کرتے بلکہ پہلے میں ہی تھوڑا سا اور مناسب رنگ ڈال کر نیا بنالیتے ہیں۔ مثلاً نیلے رنگ میں کپڑا رنگنے کے بعد انہیں سبز رنگ میں کپڑا رنگنا مطلوب ہو تو انہوں نے نیلے رنگ میں پیلا رنگ ڈالنا ہے اور وہ سبز بن جاتا ہے اسی طرح تمام رنگ وہ انہی تین رنگوں کو آپس میں ملا کر بناتے رہتے ہیں۔ کالا رنگ وہ آخر میں بناتے ہیں پھر اس میں تبدیلی بہت مشکل ہوتی ہے۔یہ تمام رنگ انسانی طبیعت‘ مزاج اور صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثلاً سرخ رنگ جذبات میں تیزی لاتا ہے‘ خوشی لاتا ہے اسی بنا پر خوشی کے موقع پر سرخ رنگ کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ دلہن کے کپڑے اور کمرہ عروسی کا سارا سامان زیادہ تر سرخ رنگ کا ہی ہوتا ہے لیکن ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ سرخ رنگ کی زیادتی لڑائی جھگڑوں کا باعث بنتی ہے اور طبیعت میں غصہ اور گرمی پیدا کرتی ہے۔ایک الیکٹرک سٹور والے نے دکان کی رونق دوبالا کرنے کیلئے سرخ لائٹوں کا زیادہ استعمال کیا جس کے نتیجہ میں اس کا گاہکوں سے جھگڑا ہوجاتا‘ دکان کا عملہ آپس میں لڑنے لگتا۔ کسی ماہر رنگ ساز نے مشورہ دیا کہ سرخ رنگ کے انرجی سیور اتار کر نیلے لگادیں اس سے طبیعت میں سکون محسوس ہوگا اعصاب کو طاقت ملے گی‘ آپس میں خلوص اور محبت بڑھے گی۔ چنانچہ رنگ تبدیل کرنے سے ایسا ہی ہوا۔ گاہکوں سے جھگڑے بھی ختم ہوگئے اور عملہ بھی آپس میں محبت سے رہنے لگا۔
پیلا رنگ دنیاوی بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور سوچ کا زاویہ وسیع کرتا ہے درویش اور سنیاسی لوگ پیلے رنگ کو اسی لیے ترجیح دیتے ہیں اگر کسی انتہائی حریص‘ لالچی اور محب دنیا کو پیلے کپڑے پہننے کو دیں اور اس کے گھر اور دفتر میں زیادہ پیلے رنگ کی اشیاءاستعمال کریں جیسے پردے‘ صوفے‘ چارٹ‘ کیلنڈر وغیرہ پیلے رنگ کے ہوں تو وہ شخص بہت جلد تارک الدنیا بن جائے گا اور فلسفیوں جیسی باتیں کرنے لگے گا امن و سلامتی کی باتیں کرے گا‘ لڑائی جھگڑے سے انتہائی گریز کرے گا۔
نیلا رنگ دماغ واعصاب کو طاقت دیتا ہے۔ ذہنی سکون کا سبب بنتا ہے ڈیپریشن کے مریض اگر نیلے رنگ کا استعمال زیادہ کریں‘ نیلی شعاعوں والا پانی پئیں‘ کمرے کی کھڑکیوں اور روشن دانوں کے شیشے نیلے رنگ کے لگائیں‘ پردے اور پہننے کے کپڑے بھی ہلکے نیلے رنگ کے استعمال کریں تو یہی چیزیں ان کو ڈیپریشن سے نجات دلادیں گی۔
ہائی بلڈپریشر کے مریض نیلی روشنی کا مراقبہ کریں تو ہائی بلڈپریشر سے نجات مل جائے گی جبکہ لوبلڈپریشر کے مریض سرخ روشنی کا مراقبہ کریں یا سرخ رنگ زیادہ استعمال کریں تو لوبلڈپریشر سے نجات مل جائے گی۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ علیحدہ جگہ آرام دہ طریقہ سے بیٹھ جائیں جس سے جسم کو سہولت ہو اگر کمرہ میں ہوں تو لائٹ بند کرکے آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ آسمان سے نیلی روشنی دماغ میں اتر رہی ہے اور آہستہ آہستہ پورے جسم میں سرایت کررہی ہے۔ یہ عمل صرف دس پندرہ منٹ کرنا ہے‘ روزانہ ایک یا دو بار کریں صبح اور شام کا وقت زیادہ مناسب رہتا ہے۔ اگر منہ شمال کی جانب ہو تو زیادہ بہتر ہوگا اس سے مقناطیسی لہریں جسم پر زیادہ اثرانداز ہوتی ہیں۔
اگر مراقبہ نہ کرسکیں تو پھر ان مذکورہ رنگوں کا استعمال زیادہ کریں۔ سرخ رنگ کا مزاج خشک ہے اس کا مرکز دل ہے عضلات کو طاقت دیتا ہے اور عضلات سے متعلقہ بیماریاں اس سے ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ پیلے رنگ کا مزاج گرم ہے اس کا مرکز جگر ہے یہ غدود پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور غدود کی بیماریاں اس رنگ کے استعمال سے ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ نیلے رنگ کا مزاج سرد ہے اور اس کا مرکز دماغ ہے اور یہ اعصاب سے متعلقہ بیماریوں میں مفید ہے۔
سورج کی روشنی کئی رنگوں پر مشتمل ہے سات رنگ تو ہم (پرزم) منشور سے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ روشنی بے شمار قوتوں کا خزانہ ہے جو زمین پر ساری مخلوق کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ روشنی ایک الیکٹرو میگنیٹک توانائی ہے اور اس کا بنیادی ذرہ فوٹان ہے اور روشنی کی مخلوط لہریں جب انسانی سرپر پڑتی ہیں تو بالوں اور سر کی جلد کے ذریعے یہ دماغ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ دماغ میں کھربوں خلیات ہیں اور ان میں برقی رو گزرتی رہتی ہے جس سے خیالات شعور اور تحت الشعور سے گزرتے رہتے ہیں۔
دماغ کا پچھلا حصہ ہوامرالدماغ اور حرام مغز پورے جسم کے اعصابی نظام میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آدمی چونکہ دو پیروں پرزمین پر چلتا ہے اس لیے کچھ لہریں زمین سے بھی جذب کرتا ہے اور سرکے ذریعے روشنی سے جذب شدہ توانائی ان لہروں کو مزید متحرک اور فعال کرتی ہے۔ اگر کبھی کبھی آپ ننگے پائوں زمین پر چلیں تو پھر توانائیوں کے معجزانہ اثرات ملاحظہ کریں۔مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے ۔ ان کے ذہن دوسروں سے زیادہ فعال ہونے لگتے ہیں ۔
الٹرا وائیلٹ ریز (بالائے بنفشی شعاعیں) تھائی رائیڈ غدودوں‘ بلغمی غدود اور جنسی غدود کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کے فعال میں تیزی لاتی ہیں‘ پولٹری فارموں میں ان شعاعوں کو روشنی میں شامل کیا جاتا ہے اور جب یہ روشنی چوزوں کی آنکھوں میں پڑتی ہے تو جسم کے بلغمی غدود کو متحرک کرتی ہے جس سے انڈوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں