ہمارے ایک عزیز فرخ نظامی صاحب کے مکان میں پانچ ڈاکو گھس گئے۔ انہوں نے چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور ان کا لب ولہجہ سندھی تھا۔ وہ کار پرآئے تھے ان کا چھٹا ساتھی باہر کار میں بیٹھا رہا۔ ڈاکووں نے گھر میں داخل ہوکر تلاشی لینا شروع کردی۔ اسی اثناءمیں نظامی صاحب کے بڑے بھائی اکرام نظامی صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھے تو ڈاکوئوں نے ریوالور دکھا کر ان پر قابو پالیا۔
اس کے بعد ان کے دوسرے بھائی فیض نظامی صاحب کی بھی آنکھ کھل گئی۔ مگر ڈاکوئوں نے انہیں بھی گولی مارنے کی دھمکی دے کر خاموش کرادیا پھر انہوں نے تینوں بھائیوں کو کمرے میں بند کردیا اور ان کی والدہ سے گھر کی چابیاں حاصل کرلیں۔ انہوں نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا تاکہ انہیں کوئی زیور یا نقدی مل جائے مگر انہیں سخت مایوسی ہوئی فرخ صاحب کی اہلیہ کے کمرے میں ایک آہنی سیف پڑا ہوا تھا انہوں نے اسے توڑا تو اس میں سے بھی کوئی کام کی چیز نہ نکلی۔ اس پر ان کی اہلیہ نے ڈاکوئوں سے کہا کہ بھائی یہ اللہ والوں کا گھر ہے یہاں تمہیں اللہ کے نام کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔“
ایک ڈاکو نے فیض نظامی صاحب کی جیب کی تلاشی لیتے ہوئے ان کی جیب میں جو نقدی تھی نکال لی تھی۔ دوسرے ڈاکو نے کتابوں کی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کیا اس میں صرف کتابیں ہیں؟ شاہین صاحب کی اہلیہ نے کہا ”قرآن مجید“ ہے۔ ڈاکو نے قرآن مجید کو احترام سے اٹھایا اور اسے بوسہ دے کر رکھ دیا۔ ڈاکو چلے گئے تو سب نے دیکھا کہ قرآن شریف کے اوپر وہ رقم رکھی ہوئی تھی جو ایک ڈاکو نے فیض نظامی صاحب کی جیب سے نکالی تھی۔ ایک ڈاکو نے گھر سے جاتے وقت فرخ صاحب کی معمر والدہ کے احترام سے پائوں چھوئے۔ جاتے وقت اس کے الفاظ تھے ”آپ میری ماں ہیں“ ایک اور ڈاکو نے گھر کی تلاشی کے دوران میں اسے جو بالیاں ملیں تھیں وہ فرخ صاحب کی والدہ کے حوالے کردیں اور خاموشی سے چلے گئے۔
امریکہ میں جلتی ہوئی لائبریری میں حفاظت قرآن
میرے والد کے ایک دوست صدیق اکبر مخدوم صاحب مرحوم (ایم ایس فزکس علیگ) پاکستان میں گونگے بہرے بچوں کی تعلیم کے بانی تھے۔ ان کو تعلیم کے سلسلے میں بار بار باہر کے ممالک میں جانا پڑتا تھا۔ انہوں نے کوئی 25سال پیشتر میرے والد کو ایک ایمان افروز واقعہ سنایا۔ فرمانے لگے بہت پہلے میں اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں امریکہ کی یونیورسٹی (غالباً کیلیفورنیا) میں مقیم تھا۔ وہاں میں نے ایک مرتبہ کئی امریکیوں کو پاکستانی ڈشیں کھانے کی دعوت دی۔ میں نے کئی ڈشیں اپنے ہاتھ سے تیار کیں۔ یاد رہے کہ ان دنوں بہت کم پاکستانی امریکہ میں رہتے تھے اور پاکستانی کھانے بہت نایاب تھے۔ امریکی دوستوں نے خوب مزے لے لے کر پاکستانی کھانے کھائے اور دل کھول کر داد دی۔ امریکیوں میں ایک ہیڈ لائبریرین بھی مدعو تھی۔ وہ اتنی خوش ہوئی کہ اس نے ہمیں درج ذیل واقعہ سنایا۔
اس نے بتایا کہ آپ لوگ اس یونیورسٹی کی لائبریری کی شاندار عمارت دیکھتے ہیں۔ کوئی ایک صدی پہلے اسی جگہ پر لائبریری کی بالکل مختلف بلڈنگ تھی۔ اس بلڈنگ میں خدا جانے کس طرح آگ لگ گئی۔ آگ نے پوری عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔ آپ کو علم ہے کہ امریکیوں کو کتابوں سے بہت زیادہ عشق ہوتا ہے ان دنوں جو ہیڈلائبریرین تھی اس کا کچھ یہی حال تھا۔ چنانچہ اس نے لائبریری میں سے زیادہ سے زیادہ کتابیں بچانے کی کوشش کی اور جان پر کھیل کر لائبریری میں گھس گئی۔ ایک شوکیس میں سے اس کے ہاتھ صرف ایک کتاب لگی۔ اندھیرے اور دھوئیں کی لپیٹ میں وہ یہ کتاب کسی نہ کسی طرح باہر لے آئی۔ باہر اس نے اور دیگر امریکیوں نے دیکھا کہ وہ کتاب قرآن پاک یعنی اللہ کی کتاب تھی۔ سبحان اللہ! جب نئی عمارت تیار ہوگئی تو باقاعدہ ایک شوکیس میں قرآن مجید کے اس مقدس نسخے کو احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ شوکیس پر اب بھی یہ تحریر موجود ہے کہ تباہ شدہ لائبریری کی جملہ کتابوں میں سے باقی ماندہ صرف ایک کتاب قرآن پاک....!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں