بہت دکھ ہوتا ہے
میری بڑی بیٹی یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ چھوٹی کالج میں پڑھتی ہے جب یہ 5 سال کی تھی تو اسے دماغ کے دورے پڑنے لگے تھے لیکن علاج کے بعد ٹھیک ہوگئی اب اس کے مزاج میں حساسیت زیادہ ہے۔ میں اس کا بہت خیال رکھتی ہوں لیکن اس کے باوجود بڑی ناراض ہوتی ہے کہ آپ تو مجھ سے محبت ہی نہیں کرتیں۔ اس پر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ (نسرین جاوید‘ کراچی)
مشورہ: عام طور پر مائیں ان بچوں کو زیادہ توجہ دیتی ہیں جو کسی نہ کسی لحاظ سے کمزور ہوں۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ بچوں میں انصاف کرنا ضروری ہے ورنہ محرومیاں جنم لیتی ہیں۔ آپ بڑی بیٹی کا بھی خیال رکھیں۔ اس سے دوستی اور ہمدردی سے پیش آئیں۔ اگر چھوٹی بیٹی کو بیماری کی وجہ سے زیادہ توجہ دینا چاہتی ہیں تو دیں لیکن اس طرح کہ دوسرے بچوں کو محسوس نہ ہو۔
نہ ہنسی آتی ہے نہ رونا
مجھے نہ ہنسی آتا ہے نہ رونا‘ بس غصہ آتا رہتا ہے۔ گھر میں تقریباً سب ہی لاپروا قسم کے ہیں۔ ایک میں ہی ملازمت کرتی ہوں اور وہ بھی رات نو بجے سے صبح نو بجے تک یعنی 12 گھنٹے ہسپتال میں ڈیوٹی دیتی ہوں‘ زیادہ وقت جاگتے ہی گزرتا ہے۔ میں نرس ہوں جب صبح گھر آتی ہوں تو سکون نہیں ہوتا۔ صحت خراب ہورہی ہے۔ بھائی بہت غیرذمے دار ہیں۔ (آمنہ کریم‘ اسلام آباد)
مشورہ: کم خوش نصیب ہوتے ہیں جن کا کوئی خیال رکھنے والا ہو ورنہ تو ہر انسان کو خود اپنا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ آپ کے مزاج پر منفی اثرات ہونے کا سبب رات کی نیند پوری نہ ہونے کے علاوہ گھر کے لوگوں کا رویہ اور غیرذمے داری بھی ہے‘ اپنے معاملات کو سمجھتے ہوئے بہتری کی کوشش کریں۔ پہلا قدم بھائیوں پر ذمے داری سونپنے کا ہے اس کیلئے انہیں کہیں جاب دلوائیں۔ گھر میں اپنے آرام و سکون کا بندوبست کرتے ہوئے اہل خانہ کو احساس دلائیں کہ آپ کو آرام کرنا ہے اور پھر ذہن سے تمام منفی باتیں نکال کر بے فکری سے سوجائیں۔ ذہن پرسکون ہوگا تو مزاج پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔
شکوے شکایات سے گریز
آج کل سکول کی چھٹیاں ہیں۔ بچے سارا دن گھر سر پر اٹھا کر رکھتے ہیں۔ ان شرارتوں سے میرا سکون ختم ہوگیا ہے۔ شام کو ان کے والد سے دن بھر کی روداد کہتی ہوں تو وہ ان کی پٹائی کرتے ہیں۔ بچے تھوڑی دیر رو کر گھر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ باہر کھیل کر واپس آتے ہیں تو میری ان سے بات تک نہیں ہوتی وہ تھکے ماندے سونے کیلئے بے چین ہوتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے میرا کہنا مانیں ان کی شکایتیں نہ کرنی پڑیں۔ (س.... ملتان)
مشورہ: بچوں کی شرارتوں اور معمولات سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ کم عمر ہیں۔ ان کے پاس چھٹیوں میں کوئی مصروفیت نہیں اس لیے وہ شرارتیں کرتے ہیں۔ آپ اپنے اور ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کریں کہ وہ آپ کی بات سنیں‘ توجہ دیں۔ فرمانبرداری کے ساتھ رہیں لیکن ایسے رویے کی توقع کرنے سے قبل ان کے والد سے شکایات کرنی ختم کردیں۔ دن بھر کے بعد شام میں ان سے ملاقات ہو تو وہ بچوں کو پیٹنے کے بجائے پیار و محبت سے پیش آئیں‘ سب مل کر ساتھ بیٹھیں۔ ساتھ کھانا کھائیں۔ اچھی باتیں کریں تاکہ ان کی اچھی تربیت ہو اور مزاج پرسکون رہے۔ چھٹیوں میں بعض سکول اور ادارے بچوں کو مصروف رکھنے کیلئے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ارادے کمزور ہیں....!
میرا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ عمر 26 سال ہے‘ ایک خاتون جو بار بار مجھے خود سے ملنے پر مجبور کرتی ہے میرے لیے مسئلہ بن گئی ہے۔ ان کی عمر 30 سال ہے۔ وہ شادی شدہ بھی ہے اب تک ہزاروں روپے کسی نہ کسی بہانے سے لے چکی ہے۔ میں بار بار ارادہ کرتا ہوں کہ اب رقم نہ دوں گا‘ اب ان سے نہ ملوں گا مگر خود کو روک نہیں پارہا۔ حالانکہ وہ خود جب چاہتی ہیں مجھ سے ملنا چھوڑ دیتی ہے۔ (ج....اوکاڑہ)
مشورہ: آپ کے ارادے کمزور ہیں اس لیے اب تک اتنا مالی نقصان ہونے کے باوجود ملنا نہیں چھوڑا۔ اس قسم کے تعلقات ہمیشہ نقصان کا سبب بنتے ہیں آپ ایک مرتبہ مستحکم ارادہ کریں اور اپنے ارادے پر قائم بھی رہیں۔ اہل خانہ کی پسند پر شادی کرلیں اس کے بعد ان خاتون کی طرف سے مکمل طور پر توجہ ہٹ جائے گی۔
میں متاثر کیوں ہوا؟
میری عمر 30 سال ہوگئی ہے اب میں ہمت ہار چکا ہوں۔ ذرا سی غفلت پر ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ حالانکہ اسی دفتر میں لوگ بڑی بڑی غلطیاں اب بھی کررہے ہیں۔ مجھے کوئی نظرانداز کرنے کو تیار نہیں۔ کبھی میری غلطی رہی اور کبھی لوگوں نے نقصان پہنچایا۔ ہر دو صورتوں میں‘ میں ہی متاثر ہوا۔ (عثمان‘ سکھر)
مشورہ: غلطی اپنی ہو یا دوسروں کی فارغ وقت گزارنے سے اس کا احساس ختم نہیں ہوتا۔ ناکامیاں‘ محرومیاں وقتی ہوتی ہیں جو لوگ ان سے سبق حاصل کرکے خود کو بہتر بناتے ہیں ان کے حالات اچھی سمت میں بدل جاتے ہیں۔ پھر انہیں کسی طرح کا پچھتاوا نہیں رہتا۔ لوگوں سے غیرضروری مراعات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں آپ کیلئے جو ذرا سی غفلت ہے ادارے کیلئے بڑی غلطی ہوسکتی ہے۔ ان کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے جنہوں نے نقصان پہنچایا بلکہ انہیں دیکھیں جو خود کو اوردوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں