پچھلے کسی شمارے میں شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ سے متعلق ایک مضمون چھپا تھا جس میں شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کو یہ مقام کیسے ملا تھا؟ شاید کچھ یوں تھا کہ شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ تھے‘ ولایت سے پہلے وہ بغداد کے بہت بڑے پہلوان تھے انہیں کوئی بچھاڑ ہی نہیں سکتا تھا کہ ایک اڈھیر عمر کے شخص نے چیلنج کردیا جب آمنے سامنے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں تماشائی موجود اور حاکم وقت بھی موجود کہ اس شخص کے سامنے جب شیخ صاحب ہوئے تو اس شخص نے کہا کہ میں سید ہوں‘ میری جوان بیٹیاں ہیں میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ تم مقابلہ میں ہار جائو تاکہ مجھے انعام کی رقم مل سکے اور اس رقم سے میں اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرسکوں‘ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اور واقعی کہ تقدیر بدل گئی اور رستم بغداد مقابلہ میں ہار گئے‘ لوگوں نے ماننے سے انکار کردیا‘ دوبارہ کشتی ہوئی دوسری دفعہ بھی اکھاڑے میںجنید بغدادی چت پڑتے تھے‘ تیسری‘ چوتھی مرتبہ بھی وہی نظاہرہ....
کسی نے بعد میں پہلوان سے پوچھا کہ پہلوان یہ بات تو سمجھ میں نہیں آتی یہ آپ بار بار کیوں چت (چاروں شانے چت) ہوجاتے ہیں تو حضرت شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب اس شخص نے مجھ سے التجا کی تو میرے دل میں اللہ نے ڈال دیا کہ چت گرجائو تو جب میں گرا تو مجھے جنت کا نظارہ ہوا جب جب میں گرا ہوں تو بار بار وہی جنت کا نظارہ ہوتا رہا۔ شیخ بغدادی رحمة اللہ علیہ پہلوانی چھوڑ کر اللہ کے حضور میں ہر وقت سجدہ ریز رہنے لگے۔ اللہ نے انہیں ہر ہر نعمت سے نوازا مگر اللہ مہربان کی قربت سے کوئی بھی نعمت ہیچ تھی ذاتی طور پر کپڑے کی تجارت کرتے تھے ایک بہت بڑا محل نما گھر ان کے استعمال میں تھا۔ ابن سباط بہت بڑا چور تھا جس سے حکومت وقت بھی تنگ آچکی تھی‘ عدالت نے اسے سزائے موت دینے کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ اس سے پہلے ابن باساط کا ایک ہاتھ چوری کے جرم میں کاٹا گیا تھا اس بدمزاج کردار کو ختم کردینے کا عدالت نے فیصلہ کرلیا تھا جس رات کی صبح کو اسکی گردن اڑانی تھی ہاتھ کٹا شیطان جیل توڑ کر بھاگا۔ جب جیل سے بھاگا تو اس کے شیطانی کردار نے اسے مجبور کیا کہ سارا بغداد سورہا ہے اور تم خالی ہاتھ جارہے ہو کچھ تو ہونا چاہیے‘ اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اسے ایک محل نما حویلی دکھائی دی‘ رات کا تیسرا پہر ہے یہ شخص اندر محل میں داخل ہوا۔ ایک کمرے میں جب داخل ہوا تو اتفاقاً یہ کمرہ کپڑے کا گودام تھا‘ اس نے اندھیرے میں تھان اکٹھے کرنا شروع کردئیے کہ ناگاہ روشنی اسی طرف آرہی تھی وہ بدبخت تیار ہوکر گھات میں بیٹھ گیا مگر جب اس کی نظر اس آنیوالے سفید کمزور سے بوڑھے پر پڑی تو اس کو کچھ اطمینان ہوا کہ یہ بوڑھا تو میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا میں تو اسے ایک ہی جست میں دبوچ لونگا۔ پہلے چور بولا کہ تم کون ہو یہاں روشنی نہ کرو‘ گھر والے جاگ جائینگے اور تم ہو کون؟ اس کا جواب دیا گیا کہ تمہاری طرح کا ہوں‘ چور سمجھا کہ یہ بوڑھا میری طرح کا چور ہے مگر بوڑھا ہوچکا ہے چور ہنسا اور کہا ”عادت بد نہ رود تالیب گور“ جواب میں بزرگ نے کچھ بھی نہ کہا اور دو گٹھڑیاں باندھنے لگا‘ ابن سباط نے جب دیکھا کہ تو اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا کہ بوڑھا ہوگیا مگر ہیرا پھیری نہیں گئی‘ ہیرا پھیری اسے اس کامقصد بددیانتی ہے یعنی دو گٹھڑیاں ایک چھوٹی اور ایک بڑی.... بزرگ تو اس (ابن سباط ہاتھ کٹا شیطان) کے تیور کو سمجھ گیا بولا بھائی یہ بڑی تمہارے لیے باندھ رہا ہوں اور یہ چھوٹی گٹھڑی اپنے لیے کیونکہ میں کمزور ہوں بوڑھا ہوں بڑی گٹھڑی نہیں اٹھا سکتا۔
تب جا کر ابن سباط مطمئن ہوا۔ معاً اسے خیال آیا کہ وقت گزرتا جارہا ہے تو اس نے بوڑھے چور کو ایک گالی دیکر جلدی کرنے چلنے اور بھاگنے کا کہا بہرحال جب حویلی سے باہر نکلے تو باہر تو کوئی نہیں تھا اور وہ دونوں بھاگنے لگے ابن باساط اس اپنے بزرگ ساتھی کو گالیاں بکتا اور جلدی چلنے کا کہتا رہا کیونکہ بوڑھا پیچھے پیچھے رہ جاتا تھا بالآخر بوڑھے چور نے بھاگنے میں ناکامی پر ہارمان لی اور اپنی گٹھڑی بھی ابن باساط کے حوالے کی اور ہانپنے لگا۔
ابن سباط گالیاں بکتا ہوا بوڑھے کو چھوڑ گیا اور دونوں گٹھڑیاں اٹھائیں اور کہیں گم ہوگیا۔ ایک دو دن کے بعد جب ذرا امن ہوا تو اسی طرح وہ بھیس بدل کر شہر کی جاسوسی کرنے اور اپنے بھاگنے کے متعلق معلومات کیلئے آیا تو ناگہا اس کی نظر اس حویلی پر پڑی لوگ اندر جارہے تھے اسے فوراً خیال آیا کہ آج کتنے دنوں بعد تک لوگ افسوس (مال چوری ہونے کا) کرنے آرہے ہیں تو اس نے دل میں سوچا کہ چلو اس حویلی کے مالک کو تو دیکھ لوں کہ وہ کس طرح کی شکل و صورت رکھتا ہے جب وہ اندر داخل ہوا تو اس حویلی کا صحن جو کہ بڑا ہی وسیع و عریض تھا لوگوں سے بھرا پڑا تھا لوگ شاید مالک مکان کے انتظار میں تھے اور لوگ احترام میں کھڑے ہونا شروع ہوگئے اور ابن باساط تو حیران رہ گیا ارے یہ تو ہی بوڑھا ہے جو اس رات موم بتی اٹھائے آگیا تھا اور خود کو چور کہہ رہا تھا اور میں اس بزرگ کی توہین کررہا تھا مگر انہوں نے جواباً ایسی کوئی بات نہیں کی ان بزرگ ہستی کے اس رویہ نے اس کی دنیا ہی بدل دی ۔اصل دنیا تو کوئی اور ہے جس کا اسے پہلے علم نہیں تھا اور اب علم ہوگیا۔
پیارے بچو! ابن باساط جو کہ بغداد کا مشہور معروف چور تھا عدالت نے باز نہ آنے پر اس کا ایک ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر یہ ہاتھ کٹا شیطان تھا باز نہ آیا مگر ایک حادثاتی ملاقات (ایک بزرگ شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ) نے اس کی دنیا ہی بدل دی اور اس نئی دنیا میں آکر اس نے بالکل نئی زندگی اختیار کی۔
ابن باساط جتنی دیر زندہ رہا اس دنیا کی بودوباش اختیار کرکے ابن باساط رحمة اللہ علیہ ہوگئے اللہ مہربان ہمیں بھی کوئی ایسا ہی بزرگ ملا دے۔ آمین ثم آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں