میرا ایک دوست جس کا نام ریاض احمد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں گرمیوں کے موسم میں بھینس چوری ہوگئیں‘ پتہ لگا کہ وہ کوئی نہ کوئی چھوڑ کر چلا جائے گا‘ ہم رات کو انتظار کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شام کو جب سورج اپنی روشنی کو مدھم کررہا تھا کہ سامنے ایک جوڑا بھینسوں کا آرہا ہے وہاں پر گھنگھرو بھی بج رہے ہیں۔ میں نے سوچا یہی وہ بھینسیں ہیں میں ان کے قریب جانے لگا چند قدم اٹھائے ہی تھے کہ جو دو جوڑے بھینسوں کے تھے مجھے پانچ نظر آنے لگے اور آواز بھی تیز ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اتنے ہوگئے کہ میں گن نہیں سکا اور وہ حملے کی نیت میری طرف آنے لگے تیزی سے ‘میں گھبرا گیا اور بھاگنے لگا وہ بھی میرے پیچھے بھاگتے چلے آئے میں تیز بھاگتا تو وہ بھی تیز.... میں گھبرا کر سامنے ایک لڑکے سے ٹکرا گیا اور نزدیک ہی دکان میں گھس گیا اور بیہوش ہوکر گرپڑا۔ چندمنٹ کے بعد ہوش آیا تو میں نے انہیں سارا قصہ سنایا وہ کہہ رہے تھے یعنی لڑکے کہ یہاں پر تو کچھ نہیں تھا۔ تمہارے پیچھے بھی کچھ بھی نہیں.... میں نے قسم اٹھا کر ان سے بات کی پھر مجھے دس دن سے بھی زیادہ بخار رہا۔ بڑی کوششوں سے میری طبیعت سنبھلی اب دن کو کام کرنے کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ جاتا ہوں۔
دوسرا قصہ بھی ان کی بہن کا ہے اس کی یعنی ریاض احمد کی بہن بہت چھوٹی نہ سہی لیکن 8 سال کی تھی اور مدرسے میں تعلیم حاصل کرتی تھیں‘ اس لڑکی کا گھر مدرسے سے دور تھا شام کویہ مدرسے جاتیں تھیں ایک دن ان کو سبق لینے کے بعد کچھ دیر ہوئی یہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ نزدیک ایک بیر کا درخت تھا کے نیچے کھڑی ہوئیں تھیں کہ اچانک ایک موٹا اور بہت بھاری وزن اٹھا کر لڑکی کی طرف پھینکا تو لڑکی رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بیہوش ہوگئی‘ کافی فقیروں کو‘ اللہ والوں کو دکھایا۔ انہوں نے یہی کہا کہ یہ خوش قسمت ہے اس لیے اسے چھوڑ دو۔ ایک دفعہ لڑکی کا بھائی کراچی کمانے کی نیت سے گیا ہوا تھا۔ رات کو اس کی بہن نے خواب میں دیکھا کہ میرا بھائی کراچی سے آرہا ہے اور کوچ میں ان کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ صبح کو اٹھ کر ماں کو بتایا پھر ماں نے کہا لڑکی خیر کی زبان کبھی بولی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد ٹیلیفون آیا کہ ریاض اس کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ دوسرا قصہ یہ ہے کہ ان کے گھر میں آٹا بالکل تھوڑا تھا مہمان بہت تھے کوئی بھی روٹی پکانے کو تیار نہیں تھے۔ اس نے کہا کہ میں پکاتی ہوں۔ بسم اللہ پڑھ کر انہوں نے روٹی پکائی‘ 20 مہمان اور 25 گھر والے بھی کھاگئے لیکن روٹی بھی کافی بچ گئی۔
ہمارے علاقے میں ایک بزرگ آئے ان سے میری اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے‘ بڑی زبردست اعلیٰ اخلاق والے اور صاحب کردار بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک مریض میرے پاس آیا انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک عامل سے کہا کہ مجھے موکل دو۔ انہوں نے ایک وظیفہ دیا اور کہا کہ پڑھو۔ میں نے کافی عرصہ پڑھا اور وہ عامل شہر سے دور چلا گیا۔ میں پڑھتا رہا اچانک موکل آنے شروع ہوگئے۔ کبھی میری چیزوں کو توڑتے تو کبھی میرے ساتھ سو جاتے اور آوازیں کرتے میں پریشان اورحیران یہ کیا ہورہاہے۔ نہ وہ عامل نہ اس کا کوئی نشان‘ نہ کوئی ایڈریس‘ اسے کہاں سے ڈھونڈوں لیکن انہوں نے میری بڑی منتیں کیں کہ میری ان سے جان چھڑائو۔ میں نے آٹھ دن تک پڑھائی کی الحمدللہ اب وہ ٹھیک ہے آئندہ انہوں نے توبہ کرلی۔
دوسرا واقعہ انہوں نے سنایا کہ ایک عورت نے مجھے گالی دی اور وہ گالی موکلوں نے سن لی۔ بس ان سے انتقام لینے کیلئے تیار ہوگئے۔ کبھی ان کے پیسے گم‘ کبھی چیزیں گم‘ کبھی کبھار تو آوازیں ہی آوازیں‘ سب لوگ ان سے خفا ہوگئے اور وہ ہروقت پریشان روتی رہتیں کہ میں نے کیا کردیا؟ بالآخر وہ میرے پاس آئیں اور توبہ کی میں نے موکلوں کو سمجھایا کہ ایسا نہیں کرتے انتقام لینا اچھی بات نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں