اے پروردگار! تو نے ہمیں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں ہم تو اسے گن بھی نہیں سکتے‘ شکریہ کرنے کیلئے میرے مالک لاتعداد الفاظ کہاں سے لائیں‘ اتنے اشک کہاں سے لائیں جو تیری ایک نعمت کے بدلے بہاسکیں‘ اتنا وقت زندگی کا کہاں سے لائیں جو صرف تیری نعمتوں کا شکریہ ادا کرسکے‘ اتنا سانس کہاں سے لوں جو تیری نعمتوں کا شمار کرسکے۔ ایک ایک نعمت تیری موجودگی کا احساس دلاتی ہے‘ اے سورج کو بنانے والے چاند کو روشنی دینے والے تو ہرجگہ موجود ہے۔زندگی کا سفر اب جوں جوں موت کے قریب ہورہا ہے‘ تیری نعمتوں کا شمار کون کرسکتا ہے تو نے ہمیں کیا کچھ عطا نہیں کیا‘ بھرپور زندگی عطا کی ہے۔ تیری رحمت کی امید نے موت کا ڈر بھی ختم کردیا ہے اسی جہاں کی خوبصورتی‘ جنت کی بشارت‘ مسلمان کے اندر نیا ولولہ اور نیا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ کافر موت سے ڈرتا ہے‘ مسلمان اس زندگی سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس سے غلطی اس دنیا میں نہ ہوجائے کہ وہ اپنے رب کو ناراض کربیٹھے‘ ہر سانس کے آنے جانے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے کیونکہ سانس بھی تو شہ رگ سے آتی ہے۔اے اللہ! جتنی تو نے اپنی رحمت سے ہمیں حسین زندگی عطا کی ہے میری خواہش ہے میری موت بھی اتنی حسین ہو کیونکہ وہ آپ سے ملنے کا ایک سبب ہے‘ آپ کی رحمت کا نظارہ دیکھنے کا ایک ذریعہ ہے‘ کتنے خوبصورت انداز میں آپ نے اس جہاں کا نقشہ کھینچا ہے جسے تیرے نیک بندے دیکھیں گے جب تک سانس ہے میں تو آپ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتی رہوں گی۔
اے عطا کرنیوالے میں اپنی اولاد کیلئے‘ روشن مستقل‘ اچھی عاقبت‘ لمبی زندگی اور پارسانہ زندگی کی دعا کرتی ہوں‘ مجھے امید ہے کہ ایک ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعائیں تو پلک جھپکتے تیرے پاس پہنچ جاتی ہے تو نے ماں کو جنت کا درجہ دیکر اس کی دعائوں کو اولیت دی ہے کیونکہ یہی تیری شان ربی ہے تواپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔
رزق حرام نے خاندان تباہ کردئیے
آہستہ آہستہ سب ختم ہوگیا سب کچھ بک گیا‘ معاملہ ادھار پر آگیا لیکن وہ بھی کب تک‘ پیسے تو چاہیے تھے گھر میں چوری کرڈالی اور وہ بھی ماں کا زیور دو تولہ بیچ ڈالا۔ (چور کے گھر دیوا نہیں جلتا) وہ پیسہ بھی ختم ہوگیا۔ پھر سود پر پچاس ہزار لے لیا وہ بھی سر پر چڑھا ہوا ہے
(ع۔ ج۔ لاہور)
محترم حکیم صاحب! میری پہلے نوکری تھی چار پیسے جمع ہوئے تو اپنے کاروبار کا بھوت سوار ہوگیا‘ نوکری کو لات ماری اور اپنا کام شروع کردیا۔ میری معاملے داری ٹھیک نہیں تھی‘ بات بے بات جھوٹ‘ ہیرا پھیری میری عادت بن چکا تھا‘ بے برکتی ہی بے برکتی اور کیوں نہ ہوتی کاروبار ٹھپ لوگوں سے لے کر انویسٹمنٹ کی وہ بھی غرق ہوگئی‘ خرچے اپنی جگہ تھے آہستہ آہستہ سب ختم ہوگیا سب کچھ بک گیا‘ معاملہ ادھار پر آگیا لیکن وہ بھی کب تک‘ پیسے تو چاہیے تھے گھر میں چوری کرڈالی اور وہ بھی ماں کا زیور دو تولہ بیچ ڈالا۔ (چور کے گھر دیوا نہیں جلتا) وہ پیسہ بھی ختم ہوگیا۔ پھر سود پر پچاس ہزار لے لیا وہ بھی سر پر چڑھا ہوا ہے۔ آج یہ حالات ہوگئے ہیں کہ آپ کے درس میں یا کہیں بھی جائوں پورا لاہور پیدل ہی جاتا ہوں‘ بس ایک ٹیوشن پڑھا رہا ہوں وہ بھی صرف 4000 روپے میں ۔ اس رقم سے میرے بیٹے کا دودھ اور اپنا ہی کچھ کھانے پینے کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔
محترم حکیم صاحب! مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوبت یہاں تک آگئی ہے۔ اللہ نے سارے گناہوں پر پردہ بھی ڈالا ہوا ہے۔ میں بہت توبہ کرتا ہوں اللہ سے لیکن بات نہیں بن رہی۔ قرض لینے والے گھر پر آگئے جس سے سود پر پیسے لیے وہ بھی نہیں دئیے جارہے۔ لوگ پولیس میں پرچے کروا رہے ہیں۔ میں کیا کروں؟ کہاں جائوں؟ خدارا میری رہنمائی فرمائیں۔
انجام قدرت (بنت جمشید چغتائی)
جو واقعہ حاضر خدمت ہے وہ لاہورمیں بسنے والی ایک فیملی کا ہے اور زیادہ پرانا بھی نہیں اس کی ابتدا 10 سال پہلے ہوئی اور وہ فیملی اب تک اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہے۔
15 سال پہلے جب پہلی مرتبہ انہوں نے ٹھیکہ لیا (تو اصل میں چھوٹا گوشت مہنگا ہے بنسبت بڑے گوشت کے) اور چند پیسے کمانے کی خاطر ٹھیکیدار ڈیری فارم والوں سے ٹھیکہ مار لیتے ہیں کہ جیسے ہی گائے اور بھینس بچے پیدا کرے گی تو اگر وہ بچہ مادہ ہوا تو آپ رکھیں اگر نر ہوا تو ہمارا اور جیسے ہی گائے یا بھینس بچہ دیتی ہے تو اگر وہ مادہ ہو تو تو اس کی ماں کے پاس رہنے دیا جاتا ہے اور وہ نر ہو تو اس کی ماں کو دکھائے بغیر ٹھیکیدار کے حوالے کردیا جاتا ہے جو کہ اسی وقت پیدا ہونے والے بچے کو ذبح کرکے لوگوں کو دھوکہ دیکر چھوٹے گوشت کا کہہ کر بڑا گوشت فروخت کرتے ہیں کیونکہ اس دھوکہ دہی سے وہ پیسے کماتے ہیں خیر اس فیملی نے جب پہلی مرتبہ دس سال پہلے ٹھیکہ لیا تو اس شخص کا تقریباً ایک سال بعد بیٹا پیدا ہوا مگر اس کا جب چیک اپ کیا گیا تومعلوم ہوا کہ بچے کے دل میں سوراخ ہے اس شخص کو کچھ کچھ سمجھ آگئی کہ حرام کا کمایا ہوا پیسہ اب بچے کے علاج پر لگے گا۔
مگر اس نے پھر بھی ٹھیکہ نہیں چھوڑا بلکہ پیسے کا لالچ دیکر اپنے چھوٹے بھائی کو اس شرط پر راضی کیا کہ ٹھیکہ میرا کام تیرا منافع آدھا آدھا۔ بھائی بھی اچھا بھلا ٹیلر تھا مگر پیسے میں بڑی کشش ہے کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے” میری امت کا فتنہ مال اور اولاد ہے۔“
بھائی نے بھی ٹیلرنگ چھوڑی اور آدھے منافع کے لالچ میں ڈیری فارمنگ کا کام سنبھال لیا۔ اس نے بھی بمشکل ایک سال کام کیا کہ بہت شدید بیمار ہوگیا علاج کرواتے کرواتے بالآخر ڈاکٹروں نے فائنل فیصلہ دیا کہ یہ شخص اب ساری زندگی اپنے منہ سے کچھ کھا نہیں پائیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی بیماری میں مبتلا کردیا کہ وہ اپنے منہ سے صرف چیز چبا سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حلق سے نیچے اترنے کا حکم نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے پیٹ سے پائپ گزار کرمعدہ میں فٹ کردیا۔ اب اس کو جب بھی بھوک لگتی تو کبھی دودھ کبھی شربت اس پائپ میں ڈالتا جاتا۔ پورے دن کی اس کی خوراک صرف 2 کلو دودھ تھا اور بس۔ پھر اس کے پیٹ کی وہ جگہ گل گئی تو ڈاکٹروں نے دوسری سائیڈ سے آپریشن کے ذریعے پائپ فکس کردیا اب وہ شخص جہاں بھی جاتا پائپ اس کے ہاتھ میں ہوتا۔ پھر اس بندے نے اپنے بھتیجے کو لالچ دیکر کام کیلئے تیار کیا کیونکہ ٹیلر بھائی اب چارپائی پر تھا بھتیجے کے کام سنبھالنے کی دیر تھی کہ دو ماہ بعد اس کے باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا تو اٹھارہ سالہ بیٹے کی ساری کمائی باپ کے علاج اور میڈیسن پر خرچ ہورہی تھی اس لڑکے کی ماں کے دل کو بھی ایک انجان ڈر اور خوف نے گھیر رکھا تھا مگر غربت اور اپنے جیٹھ کے سخت رویہ کی وجہ سے وہ بیٹے کو کھل کر منع نہیں کرسکتی تھی مگر دبے لفظوں میں بیٹے کو منع کرتی کہ دیکھو تمہارے تائے کا بیٹا اور پھر تمہارے چاچو تمہارے سامنے ہیں اب تمہارا باپ بھی دل کا مریض ہوچکا ہے‘ میرا سہارا تم ہی ہویہ کام چھوڑ دو تو بیٹا یہی کہتا کہ ہر جگہ نوکری کی کوشش کررہا ہوں جیسے ہی کہیں نوکری ملتی ہے یہ کام چھوڑدونگا‘ ابو کی دوائی کیلئے بھی تو پیسے چاہیے۔ مگر اسے دوسری نوکری ملنے کی نوبت ہی نہ آئی ایک دن ڈیری فارم پر جاتے ہوئے اس کی بائیک کی بریک فیل وگئی اور اس کی بائیک بے قابو ہوکر ایک آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی وہ اور پیچھے بیٹھا اس کا ایک دوست موقع پر جان کی بازی ہارگئے اور ماں کو جو ایک انجان سا ڈر لگا رہتا تھا وہی آج ہوگیا کہ اس کا اٹھارہ سالہ بیٹے کی لاش جو کہ شدید چوٹوں کی وجہ سے پہچانی نہیں جارہی تھی ماں کے سامنے تھی۔ حقیقت میں یہ لڑکا نہ صرف فرمانبردار بلکے پورے محلے کا راج دلارا اور بے حد حسین تھا جس کی لاش بھی پہچان میں نہیں آرہی تھی۔ اس دن ماں کو کوئی ڈر بھی نہیں تھا اور وہ کھلے عام کہہ رہی تھی میں تمہیں منع کرتی تھی یہ کام چھوڑ دو۔ جس نے بھی کیا کوئی سکھی نہیں دیکھا تمہاری دوسری نوکری کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس کے ٹھیک سال بعد وہ چچا بھی فوت ہوگیا اور اس شخص نے وہ ٹھیکہ تو چھوڑ دیا ہے مگراس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔
ان کے گھر میں اتنی نحوست ہے کہ کوئی ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ لڑکیاں زیادہ ہیں عورتیں گھر میں بیج چھیل کر اور ایسے چھوٹے موٹے کام کرکے پیٹ کی دوزخ کو پال رہی ہیں۔ وہ دل کا مریض ایک ہوٹل پر گوشت بنا کر اپنی میڈیسن پوری کرتے ہیں اس شخص کا بڑا بیٹا پکا چور بن چکا ہے۔آج دس سال ہوچکے ہیں مگر ان کے حالات ابھی تک گردش میں ہیں۔ وہ بیوہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے بھائیوں کی طرف سے خرچے کی منتظر رہتی ہے۔ کوئی بچہ بھی پڑھائی میں نہیں۔ لڑکے لوفر گھوم لیتے ہیں‘ لڑکیاں مزدوریاں کرتی ہیں۔ کوئی بھی سکھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کل مومن مسلمانوں کیساتھ ہمیں بھی ایسی دولت سے اپنی حفظ و امان میں رکھیں جو دنیا کے ساتھ آخرت کی تباہی کا سامان بھی ہے۔ یہ محض رحم خداوندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کے طفیل امت بچی ہوئی ہے وگرنہ ہم لوگ قوم شعیب علیہ السلام سے بھی خیانت کرنے میں بازی لے چکے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں