ایک صاحب نے اپنے ماموں کا قصہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ اس کے ماموں ایک پہلوان ٹائپ انسان تھے۔ راج (مستری) کاکام کرتے تھے۔ چند دن کام نہ ملا۔ شہر کا چکر لگاتے رہے‘ کمایا ہواخرچ کرڈالا۔ ایک دن شہر سے واپس ہوئے تو دیکھا کہ چند ساتھی گائوں سے باہر پتھروں پر بیٹھے ہوئے گپیں لگارہے ہیں۔ یہ بھی ان کے پاس چلے گئے سلام و دعا کے بعد پوچھا کہ کیا خاص باتیں کررہے ہو کیا مجھے بھی بتائوگے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں بیٹھو اور سن لو۔ وہ بولے ہم نے پیدل حج جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ تم نے بھی اگر جانا ہے تو تیاری کرو اور ایک دن مقرر کرکے روانہ ہوجائیں گے۔
پیسے کسی کے پاس نہیں کوئی مال مویشی فروخت کرکے چلے جائیں گے‘ کہنے لگے کہ ماموں یہ بات سن کر تڑپ گئے‘ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے لگے۔ شام کا وقت تھا گھر والے مکئی کی روٹی پکانے میں مصروف تھے گھر میں ایک ہی گنڈی پیاز پڑا ہوا تھا۔ میرے ماموں نے گنڈی اٹھائی اور جیب میں ڈال لی۔ روٹی پکنے کا انتظار کرنے لگے۔ خیال تھا کہ پیاز کاٹ کر لسی کے ساتھ روٹی کھائیں گے۔ گھر سے باہر ایک جگہ پر جاکر بیٹھ گئے۔ آگے سے راستہ گزرتا تھا۔ دیکھا کہ عام کپڑوں میں ایک شخص چلا آرہا ہے‘ سر دائیں بائیں مار رہا ہے‘ ایسا لگتا کہ گردن میں ہڈی نہیں‘ نزدیک آیا تو ماموں نے بیٹھنے کا کہا‘ وہ بیٹھ گیا۔
ماموں نے پوچھا کہ پانی پینا ہے یا لسی؟ وہ بولا لسی لے آئو ‘ ماموں ایک بڑے کٹورے میں لسی لائے اور پیش کردی‘ فقیر نے پینے کے بجائے ہاتھ دھو کر کٹورہ خالی کردیا۔ ماموں نے سوچا کہ اس کو پسند نہ آئی ہوگی اس لیے ہاتھ دھولیے‘ ماموں نے کٹورہ دھویا اور دودھ سے بھر کر پیش کیا۔ اس شخص نے دودھ سے بھی ہاتھ دھولیے۔
ماموں سمجھ گیا کہ یہ کوئی مجذوب یا فقیر ہے۔ ماموں نے گھر والوں کو کہا کہ گھی نیم گرم کرکے دیں۔ وہ پیالہ میں ڈالا اور لاکر سامنے رکھ دیا۔ فقیر نے اس سے بھی ہاتھ دھولیے اور ماموں کے جیب میں پڑی پیاز کی گنڈی مانگ لی۔ ماموں نے نکال کر بخوشی پیش کردیا۔ ماموں حیران ہوئے کہ اس نے کھانے کی پاک چیزوں سے ہاتھ کیوں دھوئے ہیں؟ روٹی کا پوچھا تو اس نے انکار کردیا۔ پیاز کی گنڈی ہاتھ میں رکھ کر سفر پر روانہ ہوگیا۔
سارے گھر والے حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ دوسرے دن صبح سویرے شہر سے ایک آدمی آیا اس نے ماموں کو کہا کہ مکان تعمیر کرنا ہے اس کے ساتھ چلے‘ ماموں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہولیے۔ مزدور بھی ساتھ لے لیا‘ کام شروع کردیا‘ روزانہ جو اجرت ملتی اس میں سے کچھ کا سودا سلف لے آتا اور باقی رقم حج کیلئے جمع کرتے رہتے۔ پانچ چھ دن گزر گئے‘ ماموں نے مالک مکان کو کہا کہ اگر وہ برا نہ مانے تو وہ ٹھیکہ پر اس سے کام کرائے۔ ماموں نے بتایا کہ ٹھیکہ سے وہ دن رات لگا کر مکان کی تعمیر مکمل کردے گا اور جلدی مکان تیار ہوجائیگا۔ روزانہ اجرت پر کام میں کافی دن لگ جائیں گے۔ مالک راضی ہوگیا۔ ماموں نے دن رات کام شروع کردیا‘ پندرہ دن میں مکان مکمل کردیا۔
مالک مکان اتنی جلدی کام مکمل کرنے پر بہتخوش ہوگیا کام بھی ایسا کیا کہ دیکھنے والے بھی تعریفیں کرنے لگے‘ مالک نے آخری دن تمام طے شدہ رقم دیکر ایک ہزار روپیہ بطور انعام بھی دیا۔ ماموں خوشی خوشی گائوں آئے دوسرے لوگوں سے کہا کہ جلدی تیاری کرو میں بالکل تیار ہوں۔ سب تیار ہوکر حج کو روانہ ہوگئے۔ مکہ مکرمہ میں چند پاکستانی ملے اور روزگار پر لگانے کی درخواست کی۔
انہوں نے سب کو روزگار پر لگادیا۔ بلڈنگیں تعمیر ہورہی تھیں شیخ کام دیکھ کر ماموں پر مہربان ہوگئے اور کھلا پیسہ اجرت میں دینے لگے۔ ماموں نے پانچ سال پورے کیے جب گائوں واپس آئے تو امیر ترین انسان تھے جب تک زندہ رہے شاہ خرچ رہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ گھر میں سوائے ایک گنڈی پیاز کے کچھ روٹی کے ساتھ کھانے کو نہ تھا اور ایک وقت وہ آیا کہ جب گھر میں مرغ اور بکرے پکنے لگے۔ فقیر نے جو اعمال کیے وہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ راز کی باتیں اللہ اور اس کے نیک بندے ہی جانتے ہیں جو روشن ضمیر ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں