کاکروچ جسے ہمارے ہاں لال بیگ کہا جاتا ہے‘ زمین پر بسنے والے قدیم ترین جانوروں میں سے ہے۔ 17 کروڑ برس پہلے جب کرہ ارض پر طویل قامت حیوانوں کا دور شروع ہوا جنہیں ہم ڈائینوساروں کے نام سے یاد کرتے ہیں تو یہ ننھا سا کیڑا انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی تیز آنکھیں 35 کروڑ سال سے کائنات کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ آئیے ہم اس ننھے منے کیڑے کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔
کاکروچ بلا کا سخت جان ہے‘ تپتے ہوئے صحرائوں سے لے کر انتہائی سرد اور برفانی علاقوں تک‘ ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ کتابوں‘ کاپیوں‘ میزوں‘ کرسیوں اور گھریلو استعمال کی دوسری چیزوں میں اکثر چھپا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ریڈیو کھولیں تو اندر سے نکل کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ گھروں‘ کھلے میدانوں‘ نہری علاقوں اور جنگلوں وغیرہ میں رہتا ہے اور پرندوں اور جانوروں کی محفوظ شدہ خوراک پر ہاتھ صاف کرتا ہیں۔ کاکروچ کی سخت جانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہر چیز کھاجاتا ہے۔ پودوں کی کونپلیں‘ جوتے‘ پرانی چیزوں پر لگی ہوئی پھپھوندی‘ کپڑوںپر مکھن اور گھی کے داغ‘ وارنش‘ کپڑے دھونے کا صابن‘ نرم لکڑی وغیرہ اس کی دل پسند خوراک ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اپنی اتاری ہوئی کھال تک چٹ کر جاتاہے۔‘ بھوکا ہو تو اپنے انڈے تک کھانے سے نہیں چوکتا۔ کاکروچ ایک ماہ تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے‘ دو ماہ تک صرف پانی پر گزارا کرسکتا ہے‘ پانچ ماہ تک اسے پانی کے بغیر صرف خشک خوراک ملتی رہے‘ تو بھی صحیح سالم رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مکانوں‘ دکانوں اور فصلوں کے علاوہ کاکروچ گاڑیوں میں بھی عام ملتا ہے۔ گاڑی کے ڈبوں میں نشستوں کے نیچے اور دراڑوں میں ان کے قبیلے کے قبیلے آباد ہوتے ہیں جو مسافروں کی پھینکی ہوئی گنڈیریوں‘ مونگ پھلی کے چھلکوں‘ کاغذ کے پرزوں اور روٹی کے ٹکڑوں پر گزارا کرتے ہیں۔
کاکروچ سے عموماً بدبو کی وجہ سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ بواس کے بچائو کا ایک ذریعہ ہے اور جسم کے بعض غدودوں سے نکلتی ہے۔ بہت سے کیڑے مکوڑے کھانے والے جانور محض بدبو کی وجہ سے کاکروچ کو نہیں کھاتے۔ مجموعی طور پر کاکروچ بہت صاف جانور ہے۔ باقاعدہ میک اپ کرتا ہے اور اپنے ہاتھ پائوں اور مونچھیں وغیرہ صاف کرنے میں کئی گھنٹے صرف کردیتا ہے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کاکروچ ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم پھیلاتا ہے۔ سائنسدانوں کی نظر میں یہ ایک بے بنیاد الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جنگلوں میں رہنے والے بعض کاکروچ جسامت میں چھوٹے پرندوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی لمبائی اڑھائی سے تین فٹ ہوجاتی ہے۔
خطرے کے وقت کاکروچ اپنی پچھلی ٹانگوں سے دولتیاں جھاڑتا ہے اور دشمن کو بھگا دیتا ہے۔ دن بھر کاکروچ بل میں رہتا ہے۔ بالعموم رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ اندھیرے میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کے سر پر تین عام آنکھیں اور دو مرکب آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دور دور تک دیکھ سکتا ہے۔ ویسے اگر اسے اندھا کردیا جائے تو بھی کسی نہ کسی طرح روشنی کو پہچان لیتا ہے۔ مونچھیں اس کی رہنمائی کرتی ہیں اور روزمرہ کے افعال انجام دینے میں اسے بہت مدد دیتی ہیں۔اوپر ہم نے کاکروچ کی سخت جانی کا ذکر کیا تھا اس ضمن میں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر اسے برف میں دبا دیا جائے تو برف پگھلنے پر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اگر آپ اس پر پائوں رکھ دیں‘ تو بھی یہ نہیں مرتا اور جونہی پائوں اٹھایا جائے صحیح سلامت اپنے راستے پر چل دیتا ہے۔ ضرورت کے وقت یہ اپنے جسم کو سکیڑ لیتا ہے۔ اس خاصیت کی وجہ سے کاکروچ اپنے جسم سے کہیں چھوٹے سوراخوں میں گھس جاتا ہے۔کاکروچ بہت تیزی سے اپنی نسل پھیلاتا ہے۔ مادہ 303 دنوں میں 180 انڈے دیتی ہے۔ بچے ایک ماہ میں جوان ہوجاتے ہیں اور دوبارہ نسل بڑھانے لگتے ہیں۔ اوسط عمر ایک سال ہے۔ایک مرتبہ روسی ماہرین حشرات الارض نے ایک کھوہ میں سے 475000 مردہ کاکروچ نکالے جو صرف ایک جوڑے کی اولاد تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں