ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کاانتخاب نام اورجگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کراناچاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! کے بعد عرض ہے کہ میں اپنی زندگی سے مایوس ہوچکی ہوں‘ آپ کا ماہنامہ عبقری پڑھا‘ آخری امید کی کرن ہے اس لیے آخری بار قسمت آزمانے کیلئے آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ حکیم صاحب میں بہت سارے مسائل کا شکار ہوں۔ آج تک اپنے مسائل کسی بہن بھائی ماں سے شیئر نہیں کیے تنہا ہی کاٹ اور جھیل رہی ہوں‘ حد سے زیادہ قدرتی طور پر بچپن سے ہی حساس ہوں تھوڑی بات پر بہت زیادہ پریشان اور فکرمند ہوجاتی ہوں۔
میری امی جان کے گھر میں خون کے چھینٹے‘ پانی کے چھینٹے‘ کبھی روڑ‘ تین چار دفعہ بکرے کا گوشت موٹا موٹا قیمہ بنا ہوا‘ گھر سے نکلا ایک دفعہ بھینسوں کی کھانے کی بھوسی میں سے چار کلو کی مقدار میں گوشت اور ایک دفعہ دیوار پر بہت سارا خون پڑا۔ ہمارے صحن میں امرود کا درخت ہے‘ اس کے نیچے بکری بندھی ہوئی تھی اس درخت پر اور بکری پر خون گرا‘ کچھ ہی دنوں میں درخت سوکھ گیا اور بکری بھی مرگئی۔ ہمارے چچا جان انہی دنوں اچانک ایک دن بیمار ہوئے دوسرے دن فوت ہوگئے۔
ہماری گائیں ساری خراب ہوگئی‘ بھینس لیتے تو وہ مرجاتی‘ بکری کے بچے پالتے وہ سارے مرجاتے‘ ابھی تک یہی حال ہے۔اس وقت امی جان کے گھر کا یہ حال ہوگیا ہے ناگھر میں برکت ہے نا پیسہ ٹکتا ہے‘ بیماری گھر سے جاتی نہیں ہے‘ بچیاں ساری بیمار کمزور لاغر ہوجاتی ہیں‘ سارے گھر کے افراد جو بہت اچھے طریقے سے پیارو محبت سے رہتے تھے اب ایک دوسرے کی بات تک برداشت نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کا گلہ دبانے تک نوبت‘ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں‘ بھائی چھ سال سے آسٹریلیا میں ہیں‘ اچھا کماتا ہے پر پتہ نہیں چلتا وہ پیسہ کہاں جاتا ہے۔ اس صورتحال کو آٹھ سال ہوچکے ہیں۔
میرا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے چچا کی وفات سے پہلے ہی میری منگنی اور نکاح ہوچکا تھا اس کے بعد میرے شوہر میرے والدین کے گھر سب بہن بھائیوں کے ساتھ رہنے لگے۔ میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے‘ بہت پیار تھا ان کو مجھ سے.... پہلے دن سے ہی وہ ایک مسئلے کا شکار تھے وہ حقوق صحیح طریقے سے ادا نہ کرپاتے۔ مجھ سے شادی سے پہلے انہی کی برادری میں سے کوئی اپنی بیٹی دینے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن میرے شوہر کوکوئی دلچسپی نہیں تھی ان میں۔ حکیم صاحب میں اپنے شوہر سے یہ بات آج تک نہیں کہہ سکی کہ آج تک مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو قانون فطرت کے مطابق شوہر سے بیوی کو ملتی ہے۔
میرے شوہر نے بہت سارے ٹیسٹ کرائے دنیا جہاں کا علاج کروایا‘ حکیموں سے‘ ڈاکٹروں سے‘ پاکستان کے ہر شہر کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی مگر نتیجہ ہمیشہ زیرو ہی رہا۔
لیکن ان کی محبت ان کا پیار مجھے کبھی حرفِ شکایت زبان پر بھی نہیں لانے دیتا تھا۔ پندرہ سال سے ہم اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ مجھے عجیب و غریب قسم کے خواب آتے ہیں‘ کبھی سمندر دیکھتی ہوں کبھی بڑی بڑی نہریں دیکھتی ہوں‘ اتنی بڑی کہ خوف آتا ہے کبھی پانی حد سے زیادہ سرخ مٹی کی طرح ہوتا ہے اور لگتا ہے ابھی تیز ہوا چل رہی ہوتی ہے کہ ابھی پانی کے اندر گرجائوں گی‘ کبھی بہت بڑی نہر دیکھتی ہوں جس کا پانی سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اوپر پرالی کے تنکے سارے پانی میں بکھرے ہوتے ہیں مجھے لگتا ہے ابھی گرجائوگی تو پھر اچانک دوسری طرف چلی جاتی ہوں اکثر پرانا جنگل جس میں پرانے درخت ہوتے ہیں اس میں پرانے گڑھے ہی گڑھے ہوتے ہیں‘ جنگل میں پرانا قبرستان ہے جو دور سے نظر آرہا ہے جہاں میں کھڑی ہوں وہاں ایک بہت پرانی سفید رنگ کی قبر ہے جو جگہ جگہ سے ٹوٹ رہی ہے۔ کبھی کبھی بہت گندگی دیکھتی ہوں‘ اکثر ڈرائونی شکل کا آدمی ہوتا ہے جو مجھے تنگ کرتا ہے‘ میری عزت خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے پر میں بڑی مشکل سے خود کوبچاتی ہوں‘ مدت سے میں سونہیں سکی ہو‘ جیسے ہی سوتی ہوں یہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے‘ میرے شوہر نے دو حج اور بہت سارے عمرے اللہ کے فضل سے ادا کیے ہیں۔ گھر میں برکت نہیں‘ طبیعت ہروقت خراب رہتی ہے‘ کوئی کام کرنے کو دل نہیں چاہتا‘ بھوک پیاس مرگئی ہے‘ چہرے پر سیاہیاں‘ آنکھوں کے گرد حلقے کالے سیاہ ہوگئے ہیں۔
شوہر کا حال یہ ہے جس نے نو سال بڑے پیار و محبت سے میرے گھر والوں کے ساتھ گزارے ہیں‘ اچانک پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ڈیڑھ سال سے میرے گھروالوں سے لڑجھگڑ کر جو کچھ میرے والدین کے گھر میں لیا تھا ساری چیزیں اٹھا کر اپنے والدین کے گھر جاکر رکھ دی ہیں‘ اب جو کمارہا ہے اپنے بھائی اور باپ کو دے رہا ہے‘ جو وہ کہتے ہیں وہ کرتا جارہا ہے‘ نا اپنا خیال ہے نااپنی صحت کا‘ خیال ہے نامیرا خیال ہے نہ پیار نا محبت‘ فون کرتا ہے چندسیکنڈ کا.... بات کروں تو کاٹ کھانے کو آتا ہے سمجھانے کی کوشش کروں تو آگے سے چیخنا شروع ہوجاتا ہے۔ کان ترس گئے ہیں کہ کبھی وہ پیار سے بات کرے‘ کرائے کے گھر میں رہتی ہوں تین تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کرسکتی جب بھی کرایہ کی بات کرتی ہوں تو لڑائی ‘ خرچہ مانگو تو لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ کہتا ہے نا میں اپنے بہن بھائیوں سے مل سکتی ہوں نا انکی خوشی‘ غمی میں شریک ہوسکتی ہوں اگر میں نے ان سے یعنی اپنے گھروالوں سے علیحدہ ہوکر رہنا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ مجھے چھوڑ دینگے‘ میرے بہن بھائی دو سال پہلے جو اس کی جان تھے آج ان کو دیکھنا تو دور کی بات ان کا نام لینا بلکہ نام سننا گوارا نہیں ہے۔
محترم حکیم صاحب! میں آج بھی اپنے شوہر سے پہلے دن کی طرح محبت کرتی ہوں اور میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں‘ میں ہر حال میں خوش ہوں‘ اللہ کی رضا پر راضی ہوں‘ میرے شوہر اس شرط پر مجھے اپنے پاس بلانے پر راضی ہوئے ہیں کہ میں اپنے گھروالوں کو چھوڑ دوں‘ میرے لیے دعا کریں کہ میرے شوہر پہلے کی طرح محبت کریں اور ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں۔ میری دنیا اُجڑ رہی ہے ایسا کیوں ہورہا ہے؟ میرے پاس سوائے دعائوں کے اور کوئی سرمایہ نہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
(قارئین الجھی زندگی کے سلگتے خط آپ نے پڑھے ، یقیناآپ دکھی ہو ئے ہو ں گے ۔ پھر آپ خو د ہی جواب دیں کہ ان دکھوں کا مدا و ا کیا ہے ؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں