حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة اللہ علیہ سے کیے گئے وعدہ کی تعمیل میں اس حقیر نے پھلت کے تاریخی ادارہ مدرسہ فیض الاسلام (جس کا موجودہ نام جامعة الامام ولی اللہ ہے) کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی‘ چند طلباءکو دارالاقامہ میں رکھا گیا‘ مدرسہ جو کچھ زمانہ قبل جامع مسجد سے حضرت مولانا محمود احمد پھلتی استاذ شیخ الہند کی خانقاہ جس کو مرزا جی کی بارک کہا جاتا تھا‘ کے کھنڈر میں چند کمرے بنا کرمنتقل کیا گیا تھا‘ مدرسہ میں روز روز سانپ نکلتے رہتے تھے اور مقیم طلباءکو جنات جو اس کھنڈر میں رہتے ہوں گے طرح طرح سے پریشان کرتے تھے۔
اتفاق سے عزیزی حافظ محمدادریس جو اس حقیر کے شروع سے رفیق ہیں کو کسی دینی دعوتی ضرورت سے راجستھان سفر پر بھیجا‘ جے پور میں ان کا قیام حضرت شاہ عبدالرحیم مجددی رحمة اللہ علیہ کے مہمان خانہ میں تھا مہمان خانہ میں وہ اکیلے تھے دروازہ بند تھا‘ اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی بلی وہاں ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ بلی حافظ صاحب کے سینہ پر سوار ہوگئی اور انسانوں کی طرح بولنے لگی‘ اس نے کہا کہ مولانا کلیم سے کہنا کہ آپ کے مدرسہ کے لوگ ہمیں بہت ستارہے ہیں اور ہمارے ساتھیوں کو مارتے ہیں ہم ایک زمانے سے وہاں رہتے ہیں آپ وہاں مدرسہ چلا کر ہمیں پریشان نہ کریں اور اپنا مدرسہ کہیں اور بنالیں‘ یہ کہہ کر وہ بلی چلی گئی‘ حافظ صاحب نے صبح کو حضرت شاہ عبدالرحیم رحمة اللہ علیہ سے رات کے واقعہ کا ذکر کیا حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ اب آپ مدرسہ میں جاکر جس طرف زیادہ سانپ وغیرہ نکلتے ہیں وہاں کھڑے ہوکر یہ کہئے کہ: اے قوم جنات! ہم لوگ مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہاں ایک مدرسہ چلارہے ہیں‘ اور ان کے قیام گاہ یہاں بنانا چاہتے ہیں‘ اس لیے آپ لوگ یہاں سے جگہ خالی کردیں اور اپنا ٹھکانہ کہیں اور بنالیں‘ حسب الحکم حافظ ادریس صاحب نے پھلت پہنچ کر اس کھنڈر کے خاص مقام پر جہاں زیادہ سانپ نکلتے تھے اعلان کیا: ایک وارث رسول کے حکم سے میں اعلان کررہا ہوں کہ ہم لوگ مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے یہاں ایک مدرسہ چلارہے ہیں اس کی ایک قیام گاہ یہاں بنانا چاہتے ہیں‘ آپ لوگ یہاں سے جگہ خالی کردیں اور اپنا ٹھکانہ کسی اور جگہ بنالیں‘ کئی استاذ بھی ساتھ تھے سب کا تاثر یہ تھا کہ جیسے ہی یہ اعلان کیا گیا محسوس ہوا کہ ایک مخلوق یہاں رہتی تھی جس کی وجہ سے اس جگہ پر دہشت سی محسوس ہوتی تھی وہ مخلوق یہاں سے چلی گئی اور عجیب سا خلا محسوس ہونے لگا اس کے بعد سے آج تک نہ کوئی سانپ نکلا اور نہ کسی طالب علم کو اثر وغیرہ کی پریشانی ہوئی۔
ابھی چند مدارس میں جانا ہوا تو ذمہ داران مدرسہ نے شکایت کی کہ طلباءمدارس کے ساتھ عوام کا بڑا سوتیلا سلوک رہتا ہے خاص طور پر جہاں مدارس کی اپنی مساجد نہیں ہیں یا مدارس مساجد میں چل رہے ہیں وہاں کے نمازی تو بس ہر وقت ذرا ذرا سی بات پر بلکہ بے بات‘ بچوں کے ساتھ حقارت آمیز اور ظالمانہ سلوک کرتے ہیں‘ مجبوراً مسجد کی نماز کی فضیلت سے محروم کرکے ان کی جماعت الگ مدرسہ کے کمرے میں کرنی پڑتی ہے‘ یہ طلباءمدارس‘ مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘ اس مبارک‘ مقدس اور اللہ کیلئے محبوب ترین نسبت کا جنات جیسی قوم تو ایسا احترام کرے کہ ایک اعلان میں سینکڑوں سال کی اپنی رہائش چھوڑ کر ذرا سے اشارہ پر جگہ خالی کردے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے ہم غلامان رسول‘ ان مہمانان رسول کو حقیر اور بے سہارا سمجھ کر ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں حتیٰ کہ مساجد جہاں پر سب سے زیادہ حق اگر کسی کا ہے تو ان مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ ان کے ساتھ نازیبا طریقہ سے ہم پیش آئیں‘ کتنے افسوس کی بات ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں