Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

گناہ بے لذت

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2014ء

 بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے استہزاء و تمسخر کو مزاح (خوش طبعی) میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاح جائز جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے‘ اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو
محمد رفیع رحیم اللہ

کسی مسلمان کے ساتھ استہزا و تمسخر یہ کبیرہ گناہ ہے اور کرنے والے کا کوئی دنیوی معاشی فائدہ بھی اس میں نہیں مگر عام مسلمان غفلت و بے پروائی سے اس میں مبتلا ہیں‘ قرآن کریم میں حکم ہے۔ ترجمہ: کوئی جماعت کسی کے ساتھ تمسخر نہ کرے شاید وہ اللہ کے نزدیک ان سے بہتر ہوں۔ استہزاء کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی اہانت  و تحقیر اور اس کے عیب کا اظہار اس طرح کیا جائے جس سے لوگ ہنسیں اس میں بہت سی صورتیں داخل ہیں مثلاً: کسی کے چلنے پھرنے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ ہنسنے اور بولنے وغیرہ کی نقل اتارنا یا قد و قامت اور شکل وصورت کی نقل اتارنا۔ اس کے کسی قول و فعل پر ہنسنا۔ آنکھ یا ہاتھ پیر کے اشارہ سے اس کے عیب کا اظہار کرنا‘ یہ وہ گناہ بے لذت ہیں جو آج کل مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں‘ عوام سے لے کر خواص تک ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ حالانکہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں ان کا حرام  ہونا صاف مذکور ہے اور دوسری جگہ ارشاد ہے یعنی خرابی ہے‘ ہر طعنہ دینے عیب چننے کی اور آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ صغیرہ سے مراد کسی مسلمان پر ستہزاء سے تبسم کرنا اور کبیرہ سے اس پر قہقہ لگانا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کسی انسان کی نقل اتاری تو نبی کریم ﷺ نے (منع فرمایا) اور ارشاد فرمایا کہ مجھے تو کوئی بڑی سے بڑی دولت بھی کسی کی نقل اتارنے پر ملے تو میں کبھی نہ اتاروں۔ اس میں اشارہ اس کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ یہ گناہ ایسا بے لذت اور بے فائدہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں اور بالفرض کوئی فائدہ ہوتا بھی جب بھی اس کے پاس نہ جانا ہی تھا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ دوسرے لوگوں کا استہزا کرتے ہیں(مذاق اڑاتے ہیں) آخرت میں ان کیلئے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف بلایا جائے گا اور جب وہ سسکتا سسکتا ہوا وہاں پہنچے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا‘ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف بلایا جائے گا جب وہاں پہنچے گا تو بند کردیا جائے گا۔ اسی طرح برابر جنت کے دروازے کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہوجائے گا اور بلانے پر جنت کے دروازہ کی طرف نہ جائے گا۔ (راوہ البیہقی مرسلا ترغیب المنذری)۔
ایک شخص کی ریح آواز کے ساتھ صادر ہوگئی لوگ ہنسنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر خطبہ میں زجرو تنبیہ فرمائی اور فرمایا جو کام تم سب خود بھی کرتے ہو اس سے کیوں ہنستے ہو اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کسی شخص کو اس کے گناہوں پر عار دلائے‘ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ احمد بن منبع فرماتے ہیں کہ اس جگہ گناہ سے وہ گناہ مراد ہیں جن سے توبہ کرلی گئی ہو۔ (ترمذی از تخریج احیاء)
تنبیہ: بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے استہزاء و تمسخر کو مزاح (خوش طبعی) میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاح جائز جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے‘ اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو اور وہ بھی مشغلہ اور عادت نہ بنے‘ کبھی کبھی اتفاقاً ہوجائے۔ (احیاء العلوم)۔
استہزاء و تمسخر جس میں مخاطب کی دل آزاری یقینی ہے وہ باجماع حرام ہے(زوار۲۔۱۸) اس کا مزاح جائز میں داخل سمجھنا گناہ بھی ہے اور جہالت بھی۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 090 reviews.