زندگی دکھ اور سکھ کا مجموعہ ہے اور اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے زندگی میں دکھوں کا سامنا زیادہ کیا ہے ‘خوشیاں تو جیسے روٹھ سی گئی ہیں۔ حالانکہ دُکھ اور سکھ ساتھی ہیں۔ دکھوں کے بعد سکھوں کا آنا لازمی بن جاتا ہے مگر پھر بھی ہم ہر وقت بے چین ‘اداس ‘پریشان ‘دکھی کیوں رہتے ہیں؟ہر کوئی ایک دوسرے سے تنگ اور بیزار کیوں ہے۔ خونی رشتوں میں سفیدی ابھر رہی ہے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے کنی کتراتے ہیں۔ اکثر خاندانوں میں جب شادیاں ہو جاتی ہیں اور بیٹوں کے الگ الگ فیملی سسٹم ہو جاتے ہیں تو پھر وہ شریک برداری کہلانے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک ہی ماں کے بیٹے ہوتے ہیں مگر پھر اپنے اپنے بیوی بچوں میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ بھائی کو بھائی کی خبر نہیں ہوتی ۔پھر اکثر ایسی عورتیں ان کی بیویاں بنتی ہیں جو بھائیوں کے درمیان دراڑیں پیدا کر دیتی ہیں جس سے اکثر خون خرابے تک نوبت آ جاتی ہے۔ پھر اسی طرح ساس بہو کے جھگڑے۔ ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ خواہ بات معمولی ہو مثلاً بہو کہتی ہے آج ساس نے اس کی مرضی کی سبزی نہیں بنائی یا ساس کہتی ہے آج بہو نے اسے پیار بھری نظر سے نہیں دیکھا ۔یہ بات معمولی درجہ رکھتی ہے مگر گھریلو جھگڑے انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ۔قرآن مجید نے بھی عورت کو فتنہ اس لیے قرار دیا کہ عورت مرد کو بہکا کر جنت سے بھی دور کر دیتی ہے۔ اس کی ذرا سی بات مرد کو اپنوں سے دور کر سکتی ہے ہمارے اکثر مشاہدوں کے مطابق مرد کم ہی لڑتا ہے اور کم ہی شکوہ شکایت کرتا ہے مگر عورتوں کی ہر بات شکوے شکایت سے پُر ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عورت ساس، بہو، نند بھاوج، دیورانی، جیٹھانی ہر رشتے میں لڑتی جھگڑتی ‘گلے شکوے کرتی نظر آتی ہے ۔یہ ازل سے ہوتا آ رہا ہے۔ کیا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا؟ ہو سکتا ہے اگر ہم چاہیں تو۔ یہ ہمارے خود پیدا کردہ جھگڑے اور مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر مرد توجہ دے تو خاندانی اختلافات آج ہی ختم ہو سکتے ہیں مثلاً بھائی اگر دوسرے بھائی سے شادی کے بعد بھی ایسا ہی سلوک کرے جیسا پہلے کرتا تھا۔ عورتوں کے پیچھے لگ کر بھائی سے قطع تعلق نہ کرے اور یا تو اختلافات اور جھگڑے ختم کروانے کی کوشش کرے یا پھر توجہ ہی نہ دے۔ پھر عورتیں خود ہی بہتر تعلقات آپس میں استوار کر لیںگی۔
کیونکہ جب (مرد حضرات) بھائی بھائی کا رشتہ قائم رہے گا تو عورت کو اپنے فتنے پھیلانے میں منہ کی کھانا پڑے گی۔ اسی طرح ساس بہو کے معاملات میں درمیان میں تو بیٹا ہی ہوتاہے۔ اسے چاہیے کہ ارگرد کی خبر رکھے اور بہتری پیدا کرے۔ پہلے تو اپنی بیوی کو اپنے گھریلو حالات سے باخبر کر دے مثلاً ہم کتنے بجے کھانا کھاتے ہیں ‘مہمانوں کی خاطر تواضع کیسے کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں کس کا حکم چلتا ہے ‘سونے جاگنے میں کس حد تک پابندی ہے‘ اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے حتیٰ کہ لباس پہننے میں کیا حدود مقرر ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ جھگڑے کی نوبت آئے ۔اسی طرح ساس بھی بہو کو سمجھائے کہ اسے معاملات کیسے نمٹانے ہیں۔ میری کونسی بات اسے دکھی کر سکتی ہے‘ کونسا کام وہ باخوشی کرسکتی ہے۔ اگر وہ کم جہیز لائی ہے تو اسے اس بات کا طعنہ نہ دیا جائے‘ اس کے میکے کو غلط نہ کہا جائے وغیرہ وغیرہ ۔ساس بہو میں پیار اور احترام پیدا ہونا چاہیے اور بیٹے کو کسی معاملے میں ایک طرف جھکاﺅ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کے کان کسی طرف سے بھی بھرے جا رہے ہیں تو اسے سننے کی بجائے سامنے بٹھا کر بات کرنی چاہیے ۔اسی طرح بہو جو اپنے میکے میںماں کی بھی باتیں سنتی آ رہی ہے ،ساس کی کسی نصیحت آمیز بات کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائے اور ساس بہو کی بیماری کی صورت میں اسے کام کرنے پر مجبور نہ کرے۔ ایک دوسرے سے تحفے تحائف کا تبادلہ کریں ۔ایک دوسرے سے منسلک رشتوں سے پیار کیا جائے مثلاً بہو کے عزیز اور ساس کے عزیز، اسی طرح خاندان رشتوں میں پیار و محبت کی فضا قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے زبان پر کنٹرول کرنا سیکھیے کیونکہ زبان شر پھیلانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھئے۔ یہ نہیں کہ اس نے ایک بات کہی میں جواب میں دس کہوں تو چین آئے بلکہ آپ سہنا سیکھئے۔ ایک خاندان آپ سے ناراض ہے مثلاً ایک بھائی کی فیملی دوسرے بھائی کی فیملی سے ناراض ہے، اسے منانے میں آپ پہل کریں۔ آپ ایسا کریں کہ ان کی دعوت کر دیں اور بجائے کارڈ بھیجنے کے خود جائیں اور منانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور دعوت پر آنے میں رضا مندی کے بعد گھروالوں سے کہیں کہ استقبال خندہ پیشانی سے کریں۔ دیکھئے اس کے کتنے مثبت اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عید‘ شادی بیاہ کے مواقع پر ایک دوسرے کو اہمیت دیجئے اور ایک دوسرے کی رائے لیجئے۔ مسائل چونکہ عورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لیے عورتوں کو کنٹرول میں رکھیے انہیں رشتوں کی محبت اور اپنائیت کے بارے میں سمجھائیے کیونکہ اتفاق میں برکت ہے اور نفاق میں بے برکتی ہے جو ہمارے لئے کوئی بھی مسئلہ پیدا کر سکتی ہے۔
اولاد کی تربیت اس انداز سے کیجئے کہ وہ شادی شدہ ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کریں۔ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ان کی بیویاں ان کے درمیان تفرقہ نہ پیدا کر سکیں۔ یہ ان مسائل کا حل ہے جو ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر گھر میں پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں۔اگر ہم چاہیں تو محبت کا پرچار کر سکتے ہیں‘ خزاں میں بہار پیدا کر سکتے ہیں‘ خوشیاں اور من پسند خوشبوئیں بکھیر سکتے ہیں۔ آئیے! پھر سے محبت کرنا سیکھئے‘ اپنوں سے جو ہم سے روٹھے ہوئے ہیں‘ جو دلوں میں نفرتوں کے پہاڑ لئے ہوئے ہیں۔ان نفرتوں کے پہاڑ کو محبت‘ اپنائیت اور چاہت سے توڑ ڈالیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 979
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں