Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

قارئین کے سینوں کے راز - اسپیشل ایڈیشن حصہ 1

ماہنامہ عبقری - جنوری 2015ء

فضائل و انوارات و برکاتِ ذکر
(ڈاکٹر عباس علی‘ واہ کینٹ)
اللہ کریم کے اسماء الحسنیٰ تورات‘زبور اور قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مذہب والے اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اللہ کریم کے نام مبارک لیتے ہیں۔ ایک نام کے علاوہ تمام نام صفاتی ہیں۔ اللہ کا ذاتی نام ’’اللہ ‘‘ ہے جو کہ تمام صفاتی ناموں کا مجموعہ ہے اور یہ اسم اعظم ہے۔ بہت سے لوگوں کو اسم اعظم کا پتہ ہی نہیں ہے۔ سورۂ اعلیٰ میں ذکر ہے۔ ترجمہ: بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو (بُرے اخلاق سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔ اس کے علاوہ ترجمہ: اللہ ہی کے واسطے ہیں اچھے اچھے نام پس ان کے ساتھ اللہ کو پکارا کرو۔(اعراف 180) ۔ترجمہ: پس تم میرا ذکر کرو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرتےر ہو اور ناشکری نہ کرو۔

(بقرہ رکوع 18)
اللہ رحیم نے قرآن مجید میں بے شمار دفعہ اپنا ذکر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ حج ذکر میں آتے ہیں۔ ذکر دو طرح کے ہیں۔ ذکر جہری جو زبان سے بول کر کیا جائے اور سنا جائے جو کہ سلاسل میں رائج ہے۔ دوسرا ذکر خفی قلبی۔ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتی ہیں کہ ذکر خفی ستر گنا زائدہے ذکرجہری سے۔ اس وجہ سے ذکر خفی بے شمار لوگ کرتے ہیں۔ اس کے فضائل انوارات و برکات بھی زیادہ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اہل یمن کی تبلیغ و تعلیم کیلئے امیر بنا کر بھیجا تو جدائی کے وقت ان کو فرمایا کہ اس حال میں تیری موت آئے کہ اللہ کے ذکر میں رطب اللسان ہو۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص کو یہ مل جائیں اس کو دین و دنیا کی بھلائی مل جائے‘ ایک وہ زبان جو ذکر میں مشغول رہنے والی ہو‘ دوسری وہ دل جو شکر میں مشغول رہتا ہو تیسری وہ بدن جو مشقت برداشت کرنے والا ہو۔ چوتھی وہ بیوی جو اپنے نفس میں اور خاوند کے مال میں خیانت نہ کرے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں جن لوگوں کی زبان اللہ کے ذکر سے ترو تازہ رہتی ہے‘ وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔ ترمذی شریف و ابن ماجہ و بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدسﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمام اعمال میں بہترین چیز ہے اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ اور تمہارے درجوں کی بہت زیادہ بلند کرنے والی اور سونے چاندی کو (اللہ کے راستے) خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور (جہاد میں) تم دشمنوں کو قتل کرو وہ تم کو قتل کریں‘ اس سے بھی بڑھی ہوئی‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ ضرور بتادیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کا ذکر ہے‘‘ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بڑا افضل عمل کیا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ تم نے قرآن شریف نہیں پڑھا‘ قرآن میں ہے ترجمہ: ’’کوئی چیز اللہ کے ذکر سے افضل نہیں۔‘‘ صاحب مجالس الابرار کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اللہ کے ذکر کو صدقہ ‘جہاد اور ساری عبادات سے اس لیے افضل فرمایا کہ اصل مقصود اللہ کا ذکر ہے اور ساری عبادتیں اس کا ذریعہ اور آلہ ہیں۔ ذکر خفی مراقبہ اور دل کی سوچ ہے اور مراد ہے۔ اس حدیث سے جس میں آیا ہے کہ ایک گھڑی کا سوچنا ستر برس کی عبادت سے افضل ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہٗ حضور اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کا ذکر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات لاکھ حصہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا میں نرم نرم بستروں پر اللہ کا ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ کریم جنت کے اعلیٰ درجوں میں ان کو پہنچا دیتے ہیں۔ (مسلم‘ حیان)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ایک ان میں سے صرف ذاکرین کیلئے ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ جل شانہٗ ذاکر سے محبت کرتے ہیں۔ بخاری‘ مسلم و بیہقی نے ذکر کیا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردے کی سی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔ حدیث عبرانی میں ارشاد مصطفیٰ ومجتبیٰ ﷺ ہے اگر ایک شخص کے پاس بہت سے روپے ہوں اور وہ ان کو تقسیم کررہا ہو اوردوسرا شخص اللہ کے ذکر میں مشغول ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے۔ طبرانی و بیہقی نے حدیث نبی کریم ﷺ بیان کی ہے جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی قلق اور افسوس نہ ہوگا سوائے اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گزری ہو۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو بھی لوگ اللہ کے ذکر کیلئے اکٹھے ہوں اور ان کا مقصد صرف اللہ ہی کی رضا ہو تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ تم لوگ بخش دئیے گئے اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔ (احمد‘ابویعلی)  حدیث نبوی ﷺ ہے کہ اس کے بالمقابل جو اجتماع ایسا ہو کہ اس میں اللہ کریم کا کوئی ذکر ہوا ہی نہیں تو یہ اجتماع قیامت کے دن حسرت و افسوس کا سبب ہوگا۔
قارئین کرام! صد افسوس ان لوگوں پر کہ دن ‘رات‘ سیکنڈ منٹ‘ گھنٹے‘ ہفتے‘ مہینے عمریں ضائع کرگئے بغیر ذکر اللہ کے اور آج کے دور میں ہر لمحہ گناہ کبیرہ میں اکثر لوگ مصروف رہتے ہیں جن میں بن مقصدبازاروں میں گھومنا‘ ٹی وی‘ ایس ایم ایس‘ انٹرنیٹ پر مصروف۔ یا اکثر دوران سفر دیکھا کہ تین تین سو میل کے سفر میں یا تو موبائل پر مصروف یا واہیات فلموں میں مصروف۔
اگر کوئی شخص بس میں اٹھ کر فلم بند کرنے کا کہہ دے تو پوری بس کے افراد کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ’’حاجی صاحب دوسری بس میں چلے جائیں جس میں ٹی وی نہ ہو‘‘ اللہ کے بندو زندگی کا خطرناک سفر ہے‘ اس میں تو اللہ کا ذکر کرتے رہو‘ 1972ء کی بات ہے کوہستانی بس میں خوبصورت بابا جی ذکر کررہے تھے‘ کنڈیکٹر کو بولے بیٹا پیشاب کرنا ہے‘ بس روک دو‘ کئی بار کہا گیا مگر ٹال مٹول ہوتی رہی‘ کھاریاں کینٹ کے قریب بس پہنچی زور دار دھماکہ سے ٹائر پھٹا بس الٹتے الٹتے بچ گئی‘ کنڈیکٹر دروازے سے اچھل کر دور جاگرا‘ شدید زخمی ہوا۔ بابا جی نے اونچی آواز لگائی جس جس نے پیشاب کرنا ہے کرلو۔۔۔!
حدیث مبارک ہے کہ جو تم میں سے عاجز ہو راتوں کو محنت کرنے سے اور بخل کی وجہ سے مال بھی نہ خرچ کیا جاتا ہو (یعنی نفلی صدقات) اور بزدلی کی وجہ سے جہاد میں بھی شرکت نہ کرسکتا ہو اس کو چاہیے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا حق تعالیٰ شانہٗ نے کوئی چیز بندوں پر ایسی فرض نہیں فرمائی جس کی کوئی حد مقرر نہ ہو اور پھر اس کے عذر کو قبول نہ فرمایا ہو بجز اللہ کے ذکر کے کہ نہ اس کی کوئی حدمقرر فرمائی اور نہ عقل دینے تک کسی کو معذور قرار دیا چنانچہ ارشاد ہے ترجمہ: ’’اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘ رات میں ‘دن میں‘ جنگل میں‘ دریا میں‘ سفر میں‘ حضر میں‘ فقر میں‘ تونگری میں‘ بیماری میں‘ صحت میں‘ آہستہ اور پکار کر اور ہر حال میں۔۔۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان ر ضی ا للہ تعالیٰ عنہٗ سے قرآن پاک کے ارشاد وکان تحتہ کنز لھما  میں منقول ہے کہ وہ سونے کی ایک تختی تھی جس میں سات سطور لکھی ہوئی تھیں۔ ترجمہ جن کا یہ ہے۔ 1۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کو جانتا ہو پھر بھی ہنسے۔ 2۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ دنیا آخر اک دن ختم ہونے والی ہے پھر بھی اس میں رغبت کرے۔ 3۔مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ ہر چیز مقدر سے ہے پھر بھی کس چیز کے جاتے رہنے پر افسوس کرے۔ 4۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جس کو آخرت میں حساب کایقین ہو پھر بھی مال جمع کرے۔ 5۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پرجس کو جہنم کی آگ کا علم ہو پھر بھی گناہ کرے۔ 6۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ کو مانتا ہو پھر کسی اور چیز کا ذکر کرے۔ 7۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جس کو جنت کی خبر ہو پھر دنیا میں کسی چیز سے راحت پائے۔بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو شیطان کو دشمن سمجھے پھر بھی اس کی اطاعت کرے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے اللہ کے ذکر کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ بغیر ذکر کے کوئی چیز نفع نہ دے گی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ لڑکپن میں یتیم ہوگئے تھے‘ چچا کے پاس رہے‘ گھر والوں سے چھپ کر مسلمان ہوگئے تو چچا کو خبر ہوگئی تو اس نے غصہ میں آکر بالکل ننگا کرکے گھر سے باہر نکال دیا‘ ماں بیزار تھی‘ لیکن پھر بھی ماں تھی اس نے ایک موٹی سی چادر بیٹے کی طرف پھینک دی جس کو انہوں نے دو ٹکڑے کرکے ایک سے ستر ڈھکا اور دوسرا اوپر ڈال دیا۔ مدینہ منورہ حاضر ہوگئے۔ حضور اقدس ﷺ کے دروازے پر پڑے رہا کرتے اور بہت کثرت سے بلند آواز سے ذکر کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ شخص ریاکار ہے کہ اس طرح ذکر کرتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :نہیں بلکہ یہ اوابین میں ہے۔ غزوہ تبوک میں انتقال ہوا‘ صحابہ نے دیکھا کہ رات کو قبروں کے قریب چراغ جل رہا ہے‘ قریب جاکر دیکھا تو حضور اقدس ﷺ قبر میں اترے ہوئے ہیں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرما رہے ہیں کہ لاؤ اپنے بھائی کو مجھے پکڑا دو‘ دونوں حضرات نے نعش کو پکڑا دیا‘ دفن کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا اے اللہ! میں اس سےراضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔۔۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے تمنا ہونے لگی کہ کاش! یہ نعش میری ہوتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ بعض آدمی ذکر کی کنجیاں ہیں کہ جب ان کی صورت دیکھی جائے تو اللہ کا ذکر کیا جائے یعنی اللہ کی یاد آجائے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے روئے وہ اس وقت تک جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھنوں میں واپس جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے روئے حتیٰ کہ اس کے آنسوؤں میں سے کچھ زمین پر ٹپک جائے تو اس کو قیامت کے دن عذاب نہ ہوگا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام ہے ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو‘دوسری وہ جو اسلام کی اور مسلمانوں کی کفار سے حفاظت میں جاگی ہو۔ ایک حدیث میں آیا ہے جو شخص تنہائی میں اللہ کا ذکر کرنے والا ہو وہ ایسا ہے جسے اکیلا کفار کے مقابلہ میں چل دیا ہو۔
محترم قارئین! اللہ کے ذکرکے بارے میں قرآن نے بے شمار بار حکم صادر فرمایا ہے اور بے شمار احادیث میں ذکر کی افادیت اور فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ دنیاداری کے ساتھ اللہ کے ذکر کیلئے ضرور وقت نکالیں۔ تہجد‘ اشراق‘ چاشت‘ فرض نمازوں کے بعد تھوڑی دیر ہی سہی اللہ کا ذکر کرلیا کریں چاہے ذکر جہری کریں یا ذکر خفی۔ لیکن بہترہے کہ ستردفعہ درجے کا حامل ذکر خفی کرلیا کریں اگر چند بار ذکرکرلیں گے تو سترہزار بار لکھا جائے گا۔ دین و دنیا کے کام بن جائیں گے۔

تلاش منزل
(محمدارشد            زبیر‘ساہیوال)
منزل تو ملتی ہے مگر ایمان نہیں ملتا‘ ایمان کے بغیر زندگی ادھوری ہے‘ آخرت گزارنا بہت مشکل ہے۔ زندگی حلال اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال میں ہی کامیابی ہے۔ شفاء تو اللہ ہی نے دینی ہے اس نظریے کو لے کر روحانی عمل سیکھنے کیلئے مختلف عاملوں کے پاس جاتارہا لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا کیونکہ اکثر عامل جادو اور ہندوؤں کے منتر یاد کیے ہوئے تھے جو کہ مجھے انتہائی ناپسندیدہ تھے۔ عاملوں کو کہتا کہ یہ عمل چھوڑ دو‘ ان منتروں سے تو ایمان باقی نہیں رہا لیکن مسلسل یہ بُرے اعمال کرنے والوں کو طرح طرح کی بیماریاں اور گھریلو حالات ابتر ہی دیکھے۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب ہے۔ قرآن پاک میں شفاء بھی اور رحمت بھی اور ہدایت بھی ہے۔ بات صرف یقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے کلام پر کامل یقین ہو۔ اگریقین کمزور ہے تو کوئی بھی عمل فائدہ نہیں دیتا۔ میں نے اتنے عرصے میں یقین کی قوت حاصل کی تو مجھے وہ کامیابیاں ملی جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مشکل سے مشکل مرحلے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ مجھ سے اکثر احباب پوچھتے ہیں کہ آپ نے کونسا عمل کیا ہوا ہے تو میں یہی بتاتا ہوں کہ یقین۔۔۔ یادرکھیں! یقین ہی وہ قوت ہے جو کہ آپ کے اندر قوت عمل پیدا کرتی ہے۔ یہ یقین پیدا کیسے ہو اور اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام گناہوں سے سچی توبہ کریں۔ نماز کی پابندی کریں۔حلال اور پاکیزہ چیزوں کا استعمال کریں‘ اپنے لیے رہبر تلاش کریں تاکہ استاد کی سرپرستی میں اپنی منزل کو پاسکیں وہ جو اعمال بتائیں ان پر عمل کریں اور اپنے رہبر کو اپنے حالات سے بھی باخبر رکھیں تو انشاء اللہ آپ کے اندر یقین کی قوت پیدا ہوجائے گی۔ اب آپ کیلئے اعمال کرنے آسان ہوجائیں گے۔

سورۂ مزمل کا خاص عمل
یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے دین و دنیا کے بہت فائدے ہیں اور اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی خواب میں زیارت نصیب ہوتی ہے اگر اس پر مستقل عمل کرتے رہیں تو اس کے فائدے بھی مستقل ہیں اور دائمی ہیں‘ سب سے پہلے رزق کی کمی دور ہوجاتی ہے اور رزق کثیر تعداد میں ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ علم کے راستے کھل جاتے ہیں اور دن بدن روحانی ترقی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
وہ مبارک روحانی عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے سورۂ مزمل زبانی یاد کریں‘ بہتر ہے کہ کسی قاری صاحب سے تجوید ومخارج کے ساتھ یاد کریں تاکہ کسی قسم کی غلطی نہ رہ جائے اور جب نیا چاند شروع ہو اور اس کی پہلی جمعرات ہو۔ اول و آخر درودشریف 11 بار درودابراہیمی‘ سورۂ مزمل گیارہ بار پڑھیں۔ پھر سوتے وقت گیارہ بار دل میں یعنی زبان تالو کے ساتھ لگا کر دل میں پڑھے‘ اول تو پہلے ہی روز خوشخبریاں ملنا شروع ہوجائیں گی۔ یہ عمل مسلسل 41 یوم کریں اور اس عمل کے ساتھ یَامُغْنِیُ گیارہ سو بار پڑھیں۔
اس عمل کے دوران اگر زیارت رسول ﷺ نصیب ہوجائے تو اللہ پاک کا شکر ادا کریں جس نے آپ کو یہ سعادت نصیب فرمائی آپ اپنا یہ روحانی عمل جاری رکھیں اس کے بعد علم کے دروازے کھل جائیں گے۔مجھے بھی اس عمل کے دوران زیارت رسول مقبول ﷺ نصیب ہوئی۔
اس طرح ہوئی کہ ہمارے شہر میں ایک دینی مدرسہ ہے‘ اس کے دروازے پر ایک آدمی دیگ پکارہا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ دیگ کیوں پکارہے ہو تو اس نے کہا کہ حضورﷺ تشریف لارہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آپ ﷺ تشریف لائے میں نے آپﷺ سے پوچھا کہ آپ یہاں پر کیوں تشریف لائے ہیں۔
تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مدرسہ میں آیا ہوں آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اس طرح چمک رہا تھا جس طرح چودھویں کا چاند چمکتا ہے۔ دوسرا خواب: اس طرح آیا کہ بیت اللہ شریف کے باہر باب عبدالعزیز ہے وہاں پر ایک بزرگ ملے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا درس سننے کیلئے بیت اللہ کے اندر درس دیتی ہیں۔ وہ سننے کیلئے جارہا ہوں ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں ان بزرگ کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔
جب اکتالیس یوم پڑھتے ہوئے مکمل ہوئے تو اس سورۂ مبارک کا موکل جو بہت خوبصورت تھا سر پر اس کے سبز تاج تھا۔ میرے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے میں ظاہر ہوئے اس کے بعد بے شمار مرتبہ بہت ہی اچھے خواب آئے علم اور رزق کے دروازے کھلتے ہی گئے یادرکھیں۔ اس عمل کو مسلسل جاری رکھیں‘ انشاء اللہ تمام مشکلات حل ہوں گی۔ ایک مرتبہ میرا موبائل گم ہوگیا میں سورۂ مزمل پڑھتے پڑھتے سوگیا میں نے کہا کہ میرا موبائل واپس دلایاجائے تو آواز آئی آپ کو قیامت والے دن اس کا حق ملے گا تو میں مطمئن ہوگیا۔اس عمل کی برکت سے بے شمار دینی فوائد اور دنیاوی فائدے ہوئے ہیں۔
نظربد کے قاتل وار اور ان کا شافی علاج
(صہیب احمد ہاشمی)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! نظربد کے متعلق ایک مضمون آپ کی خدمت میں پیش ہے اور میری سالہاسال کی ریسرچ اور تجربات پرمبنی ہے۔ حقیر سی کاوش ہے اللہ قبول و منظور فرمائے اور میری آخرت سنوارنے کی وجہ بن جائے۔ آمین۔
جنات‘ جادو اورنظربد میں سے اگر کسی چیز کے بارے زیادہ فکرمند ہونا ہے تو نظربد کے بارے ہوں ‘جس تیزی سے یہ نقصان پہنچاتی ہے اور جس قدر اس کے بداثرات دیرپا ہیں اور جتنا مہلک وار نظربد کا ہے میرے نزدیک کسی اور چیز کا نہیں۔
ایک مرتبہ میرے ایک استاد محترم نے مجھے اپنے گھر بلایا جو خود حافظ قرآن‘ عالم اور عامل ہیں اور دینی مدرسہ بھی چلاتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے مدرسہ کے ایک استاد کی اہلیہ بہت سخت بیمار ہیں‘ جادو اور جنات کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور مسلسل ان کا علاج کرنے کے بعد بھی کامیابی نہیں مل رہی۔ میں نے ہرحربہ آزما کر دیکھ لیا ہے مگر ان کی طبیعت دن بدن خراب ہی ہوتی جارہی ہے۔ مزید تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ حافظ صاحب گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل ان کا علاج کررہے تھے اور وہ خود اور ان کے غلام جنات جن میں بہت سے حافظ قرآن اور عالم دین جنات بھی شامل تھے‘ علاج سے عاجز آچکے تھے۔ حکم فرمانے لگے کہ تم اس معاملے کو اپنی نظر سے دیکھو اور مشورہ دو‘ ہوسکتا ہے کہ تمہارے ذریعے ہی یہ عقدہ کھلے۔ میں نے ان سے دعا کی درخواست کی اور مراقبہ شروع کردیا۔ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم اور لطف و عطا سے مجھے علم عطا فرمایا اور عقدہ یہ کھلا کہ یہ مریضہ جادو اور جنات کی نہیں بلکہ نظربد کا شکار ہیں‘ کوئی حاسد نظربد لگاتا ہے اور ان کا روحانی قدرتی دفاعی نظام تباہ وبرباد ہوجاتا ہے اور یہ بار بار بیمارہوتی اور آوارہ جنات اور سحر کا نشانہ بنتی ہیں۔ اصل مسئلہ جنات اور جادو کا نہیں بلکہ نظربد کا ہے۔ میں نے انہیں یہ بات بتائی اور توڑ کا طریقہ یاد دلایا۔ یہ مریضہ اُسی کمرے میں بے ہوش پڑی تھیں اور ان کے شوہر ان کے ساتھ موجود تھے۔ حافظ صاحب نے پانی پر نظربد کا انتہائی طاقتور عمل پڑھا اور کچھ ان کو پلا دیا اور باقی ان کے شوہر کے ذریعے ان پر گرا دیا گیا۔ جیسے ہی دم والا پانی مریضہ پر پڑا وہ ہوش میں آگئیں اوردعائیں دینے لگی کئی ماہ بعد ان کو سکون محسوس ہوا اور ہوش و حواس قائم ہوگئے۔
میری والدہ کو ایک بار کہیں تعزیت کیلئے جانا پڑا‘ واپس آئیں تو سخت بیمار ہوگئیں‘ چند ہی گھنٹوں میں بیماری نے اس قدر شدت پکڑلی کہ ہمیں ان کی جان کے لالے پڑگئے۔ ذہنی طور پر نیم بے ہوشی اور جسمانی طور پر سخت نڈھال اور بے چین۔۔۔ جو بھی دوائی دیں بالکل اثر نہ کرے۔ دو دن مسلسل ایسے ہی گزر گئے‘ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ یہ کہیں اور مسئلہ نہ ہوگیا ہو۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جہاں آپ تعزیت کرنے کیلئے گئیں تھیں‘ وہاں آپ کو کون کون ملا اور کوئی قابل ذکر بات ہوئی ہو تو مجھے بتائیں۔ فرمانے لگیں کہ کچھ خواتین نے مجھ سے گھر بار کی خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ گھر کا انتظام کون چلاتا ہے میں نے بتادیا کہ الحمدللہ میں ہی سنبھالتی ہوں۔ میں مسکرانے لگا اور ان کو بتایا کہ آپ کو نظربد لگ گئی ہے۔ کہنے لگیں کہ بیٹا اس بوڑھی عمر میں مجھے کس کی نظر لگنی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو دم کرتا ہوں اگر نظربد ہوئی تو انشاء اللہ اتر جائے گی اور آپ بھلی چنگی ہوجائیں گی۔ ان کی اجازت سے ان پر نظربد کا انتہائی طاقتور اور سریع الاثر عمل کیا۔ عصر کے وقت عمل کیا اور الحمدللہ مغرب کے بعد انہوں پھر چلنا پھرنا شروع کردیا اور عشاء تک وہ مکمل ٹھیک ہوگئیں اور انعام میں ڈھیر ساری دعائیں اور پیار بھری مسکراہٹیں ملیں۔
میرا چھوٹا بھائی جو میڈیکل کا طالب علم ہے‘ چھٹیاں گزارنے گھر آیا اور مجھے کہنے لگا کہ بھائی میں بہت سخت بیمار رہتا ہوں‘ میرے سارے ٹیسٹ بھی کلیئر ہیں اور میرے کالج کے پروفیسر ڈاکٹرز کو بھی سمجھ نہیں لگ رہی کہ بیماری کی اصل وجہ کیا ہے‘ میں نے توجہ کی اور اسے بتایا کہ حسد بھی ہے اور حسد کے ساتھ قصد بھی ہے۔ والد صاحب ہماری باتیں سن رہے تھے‘ مجھے فرمانے لگے کہ اپنے بھائی کو رُقیہ سے فائدہ پہنچاؤ۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھے اس حاسد کا حسد اور اس کا قصد اُسی پر واپس بھیجنے کی اجازت دیں تاکہ آئندہ توبہ کرے اور باز رہے اور یہ جو کوئی بھی ہے اللہ ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔ اجازت ملنے پر میں نے نظربد اور قصد کے پلٹانے کی نیت سے عمل پڑھا اور طریقے سے عمل کو مکمل کیا‘ عمل مکمل ہوتے ہی میرے بھائی کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوگئی‘ ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ میرے والد صاحب کو ایک شکایتی کال موصول ہوئی جس میں انہیں کہا گیا کہ آپ کے بیٹے صہیب نے مجھ پر بہت سخت پڑھائیاں کیں ہیں‘ مجھے آگ لگی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ مجھے میرے پیر صاحب نے آپ کے بیٹے کی نشاندہی کی ہے‘ اس کومنع کریں۔ والد صاحب مسکراتے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمانے لگےکہ جس بندے کی نظربد تھی‘ اس کا پتہ چل گیا ہے‘ میں نے چھوٹے بھائی سے کہا کہ اگربچنا ہے یہ عمل پڑھتے رہو‘ چھوڑو گے تو نقصان ہونے کا احتمال ہے۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 114 reviews.