شوگر کا انکشاف ہوتے ہی بیگم بجھ سی گئی کیونکہ کہ میٹھا ان کی من پسند ڈش تھی اور کشمیریوں (بٹوں) کی خوش خوراکی سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ بیگم کی پسندیدہ ڈشوں میں فرنی‘ کھیر‘ گجریلا‘ برفی‘ گڑوالے چاول جو کھوئے میں پکائے ہوں‘ پیڑوں والی لسی اور اسی طرح کی دیگر میٹھی اشیاء شامل تھیں
ایک معروف اشاعتی ادارے کے چیف ایڈیٹر ذیابیطس کے مریض ہیں‘ آٖفس بوائے امجد کی ڈیوٹی میں ایڈیٹر صاحب کو دوپہر کا کھانا‘ چائے اور پھول وغیرہ پیش کرنا بھی شامل تھا۔ ایک دن امجد منہ لٹکائے ایڈیٹر صاحب کے کمرےسے نکلا‘ تو میرا اُس سے ٹاکرا ہوگیا۔ میں نے افسردگی کی وجہ پوچھی‘ تو وہ مجھے ساتھ لیے کمپیوٹرسیکشن میں آگیا اور کہنے لگا: ایڈیٹرصاحب کھانا کھاچکے‘ تو میں ان کی ٹیبلپر آم رکھ کر چلا گیا۔ اب جب میں برتن اٹھانے آیا تو وہ مجھے پوچھنے لگے: ’’یہ کون سا پھل تھا؟‘‘ میں نے جھٹ سے کہا ‘‘جی آم تھے‘‘ تو وہ مجھ پر برس پڑے کہ تمہیں نہیں پتا مجھے شوگر ہے اور تم نے مجھے آم کھلادئیے؟ عجیب نامعقول آدمی ہو‘ آئندہ ایسی حرکت نہ ہو‘ بے وقوف! امجد پلیٹ میں پڑی آموں کی گٹھلیاں مجھے دکھا رہا تھا جو اس قدر رغبت سے چوسی گئیں تھیں کہ بالکل سفید ہوچکی تھیں۔ خیر یہ تو تھا ایک حقیقی چٹکلا آئیں اب اس موذی مرض پر بات کرتے ہیں۔ مہنگی سےمہنگی ادویہ اور اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج کے باوجود ذیابیطس جسے عرف میں شوگر کہتے ہیں۔ ایسی بیگم کوچمٹی کہ بے چاری کو جان کے لالے پڑگئے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ’’ظالم‘‘ اس وقت عیاں ہوتی ہے جب اسے اپنے شکار کو جکڑے پانچ سے چھ سال گزر چکے ہوتےہ یں اور بروقت تشخیص نہ ہوتو یہ مریض کے کسی بھی اعضا کو مفلوج یا ناکارہ کردیتی ہے۔ اسے اُم لامراض کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ یہ حسن‘ جوانی اور توانائی سب کچھ چھین لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں مریض کیلئے شجر ممنوعہ بن جاتی ہیں۔
بے چارہ ڈاکٹر اور طبیب کی تنبیہ کے باوجود چوری چھپے تھوڑی مقدار میں وہ نعمتیں کھاتا اور جھوٹ بولتا ہے کہ میں نے نہیں کھائیں۔چند سال پہلے اس بیماری نے میرے گھرکی راہ دیکھ لی اور بیگم ٹانگوں کی اکڑاہٹ اور پیروں کے تلوؤں میں شدید درد کی شکایت کرنے لگی۔ دافع درد ادویہ سے وقتی افاقہ ہوتا اور پھر وہی تکلیف لوٹ آتی۔ بے چاری اٹھتے بیٹھتے ہائے ہائے کرتی۔ تھوڑے ہی دنوں میں چہرہ اُتر گیا اور وزن بھی سات کلو کم ہوگیا جو باعث تشویش بات تھی۔
ڈاکٹر نےشوگر ٹیسٹ کرانے کو کہا‘ تو بیگم سمیت میں بھی حیران تھا۔ پھر سوچا صرف پچاس روپے کا ٹیسٹ ہے کرالیتے ہیں۔ کلینک ہی پر سہولت موجود تھی‘ رپورٹ میں شوگر 255 آئی‘ تو پتہ چلا محترمہ ذیابیطس کی مریضہ بن چکی ہیں اور ساتھ بلڈپریشر بھی ہے۔ شوگر کا انکشاف ہوتے ہی بیگم بجھ سی گئی کیونکہ کہ میٹھا ان کی من پسند ڈش تھی اور کشمیریوں (بٹوں) کی خوش خوراکی سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ بیگم کی پسندیدہ ڈشوں میں فرنی‘ کھیر‘ گجریلا‘ برفی‘ گڑوالے چاول جو کھوئے میں پکائے ہوں‘ پیڑوں والی لسی اور اسی طرح کی دیگر میٹھی اشیاء شامل تھیں جنہیں اب وہ حسرت بھری نظروں سے دیکھتی اور سب سے نالاں رہتی۔ بیگم ماضی کی چلبلی راتیں یاد کرتی جب ہم اہل خانہ سے چھپ کر اپنے کمرے میں کبھی آئس کریم‘ برگر‘ شوارما یامچھلی اڑایا کرتے اور اس کے بعد ٹھنڈی ٹھار کولا سے مزہ دوبالا کرتے۔ اب وہ کہتی کہ آپ نے اوور ایٹنگ کرا کے مجھے شوگر کی مریضہ بنادیا۔ یہ مرض مجھے آپ کی وجہ سے لاحق ہوا ہے میرے تو خاندان میں کسی کو شوگر نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے میٹھے سے پرہیز‘ صبح و شام سیر اور ادویہ میں جیویا ایم صبح شام اور زولڈ30mg ایک گولی روزانہ کھانے کیلئے دی۔ پرہیز اور ادویہ سے بیگم کو افاقہ ہوا تو ڈاکٹر نے تاحیات یہ ادویہ تجویز کردیں اور ساتھ گلوکومیٹر رکھنے کی تاکید کی تاکہ گاہ بہ گاہ شوگر کی پڑتال کی جاسکے۔ اڑھائی ہزار کا گلوکومیٹر اور تیرہ سو کی اسٹکس منگوالی گئیں۔ ڈاکٹر نے چیک کرنے کا طریقہ سمجھادیا اور ہم فیس ادا کرکے گھر لوٹ آئے۔میں نے بیگم کی ڈھارس بندھائی کہ بیماری کی تشخیص ہوجائے تو علاج آسان ہوجاتا ہے‘ لہٰذا پرہیز کرو اور دوائی وقت پر کھاؤ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ایک نیا ایشو کھڑا ہوا وہ یہ کہ میں جب کبھی گھر کوئی پھل لے کر آتا‘ تو بیگم کا منہ بن جاتا کہ آپ کو پتہ بھی ہے مجھے شوگر ہے اور آپ آم اٹھا لائے ہیں۔ شوگر نے اسے چڑچڑا کردیا تھا جو بغیر سوچے سمجھے شکوہ شکایت کردیتی اور میں بھی سوچنے لگتا کہ کڑوا اور پھیکا پھل کون سا ہے۔ شروع شروع میں یہی خیال آیا کہ بیگم مذاق کرتی ہے مگر وہ سنجیدہ تھی۔ کئی بار اس بات پر ہماری تکرار بھی ہوجاتی۔ مختصر یہ کہ ’’میٹھی‘‘ بیگم نے زندگی ’’کڑوی‘‘ کردی تھی۔ بیگم کی شوگر کم ہوتی اور بڑھتی رہتی مگر چڑچڑاپن برقرار رہا۔ گھر میں کوئی تقریب ہوتی یا مہمان آتے‘ تو خاطر مدارات کے دوران بیگم میٹھے کے ساتھ خوب انصاف کرتی اور مہمان بھی کہتے کوئی بات نہیں کچھ نہیں ہوتا خیرصلہ۔ بیگم بھی ان کی باتوں میں آجاتی اور بعد میں شوگر کی ڈبل ڈوز کھالیتی۔ گلوکومیٹر کی اسٹکس ختم ہوجاتیں اور مجھے لانے میں دیر ہوجاتی تو اس بات پر ہنگامہ کھڑا ہوتا کہ مجھے محترمہ کی کوئی پروا نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اس میٹھی بیماری نے زندگی کسیلی کردی تھی۔ ایک دن میرے دفتری ساتھی ضیاء اللہ محسن میرے دوسرے ساتھی علی حسن سے اپنے والد کی شوگر کے متعلق بات کررہے تھے کہ انہیں پورے جسم میں مختلف جگہوں پر درد ہوتا ہے۔ دو چار ماہ پہلے ڈاکٹر نے شوگر تشخیص کی ہے‘ مگر دوا کھانے کے باوجود ابھی تک تکلیف میں مبتلا ہیں۔ علی کہنے لگا: میری والدہ بھی ذیابیطس کی مریضہ ہیں۔ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ہروقت افسردہ اور بجھی بجھی رہتی تھیں۔ گھر میں ایک بیمار ہو تو پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔ نقاہت کا ان سے چولی دامن کا ساتھ تھا‘ ابو پانی کی طرح پیسہ بہا رہے تھے مگر تندرستی ان سے روٹھی ہوئی تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں اپنے ایک جاننے والے ایک بزرگ جو گوجرانوالہ میں رہتے ہیں کسی کام کے سلسلے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ میرا چہرہ دیکھ کر بھانپ گئے کہ مجھے کوئی پریشانی ہے۔ سلام دعاکے بعد انہوں نے پہلا سوال ہی اس بابت کیا۔ ہمدردی کے بول سنتے ہی میں پھٹ پڑا اور اپنی والدہ کی بیماری اور ان کی حالت کے بارے میں انہیں بتایا‘ تو انہوں نے مجھے تھپکی دی اور مسکرا کر کہنے لگے بے فکر ہوجاؤ۔ میں تمہیں ذیابیطس کا تیربہدف نسخہ بتاتا ہوں تم والدہ کو وہ شروع کراؤ پھر اس کی کرامات دیکھو۔ جب سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے اللہ کے فضل سے وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ الحمدللہ اب بہت بہتر ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایلوپیتھک ادویہ مکمل طور پر چھوڑ دینی ہیں اور نسخہ بالکل سادہ اور سستا ہے۔
ھوالشافی: پنساری کی دکان سے سونٹھ اور سوکھا جنگلی پودینہ خرید لیں۔ مثلاً سوگرام سونٹھ اور سوگرام سوکھا پودینہ۔ دونوں کا سفوف بنالیں اور اچھی طرح مکس کرکے صاف ستھرے شیشے کے جار میں محفوظ کرلیں۔ صبح نہار منہ ایک چائے کا چمچ یہ سفوف پانی کے ساتھ پئیں۔ خیال رہے کہ صرف دس دن کسی بھی قسم کا گوشت یاگوشت میں بنی کوئی ڈش استعمال نہیں کرنی۔ بعد میں اعتدال سے کھاسکتے ہیں۔جلد ہی افاقہ محسوس ہوگا اورذیابیطس کی وجہ سے جو شکایات تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے رفع ہوجائیں گی۔ جب سفوف ختم ہوجائے تو دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ ادرک‘ لہسن‘ پودینہ اور انار دانہ ہم وزن لے کر چٹنی بنالیں اور ہر کھانے میں ایک چمچ چٹنی ضرور استعمال کریں اور اسے معمول بنالیں۔ سفید چینی اور اس سے بنی اشیاء سےمکمل پرہیز کریں کیونکہ یہ چینی دراصل ’’سفید زہر‘ ہے۔ راقم کیلئے دعا خیر کی استدعا ہے۔ انسولین استعمال کرنے والے آہستہ آہستہ انسولین کی ڈوز کم کرتے چلے جائیں۔ یک دم انسولین ترک نہ کریں اور گاہ بہ گاہ ذیابیطس کی پڑتال کرتے رہیں۔ کم از کم دو کلومیٹر روزانہ پیدل چلنا معمول بنالیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں