صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند مرتبے والے تھے ان کی شان نرالی تھی نرالی شان والے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بد دعا بھی نرالی ہوتی تھی ۔ آج کل لوگ اپنے دشمنوں کو لعن طعن ‘ تباہی ‘ بربادی ‘ موت عذاب اور آفات میں مبتلا ہونے کی بد دعا دیتے ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بد دعا کے ضمن میں کسی نہ کسی طرح رحمت و شفقت اور دعائے خیر کا پہلو موجود ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا وجود زمین والوں کے لئے رحمت و سعادت تھا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے تلامذہ تھے جو سارے عالم کے لئے رحمت ہیں ۔عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ سراپا رحمت عالم نبی کریم ﷺ کے تلامذہ بھی عالم کے لئے رحمت و نعمت ہوں اور ان کے جملہ اقوال ‘ افعال اور اعمال اگرچہ حالت غصہ میں واقع ہوئے ہوں ان میں بھی ضمنا ً و تبعا ً رحمت و شفقت کی جھلک موجود ہو ۔ ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں ۔1 ۔ بعض اہل کوفہ نے مشہور صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں نا جائز اور بے جا شکایت کی ۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو اس کوفی شخص کو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تو نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے زیادہ مال ‘ زیادہ اولاد اور بلند دنیاوی مرتبہ دے جس کی وجہ سے کثرت سے لوگ تیرے پیچھے چلتے رہیں ۔ (کتاب الزھد ص 186) ۔
2 ۔ ایک آدمی نے حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ کو اذیت دی اور تکلیف پہنچائی تو انہوں نے اس کے لئے یوں بد دعا فرمائی کہ اے اللہ ! جس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے آپ اسے صحت و تندرستی دے دیں ‘ اس کی عمر لمبی کر دیں اور اس کا مال بڑھا دیں ۔ (احیا ء العلوم جلد 3 صفحہ 202) ۔3 ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر فقیہ ‘ مجتہد اور بے شمار مناقب و فضائل والے صحابی ہیں ان کی ایک بد دعا کتب حدیث میں مذکور ہے ۔ایک مرتبہ کسی چور نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے درہم چرا لئے گھر والوں نے فطری و طبعی تقاضے کے پیش نظر چور کو بد دعائیں دینا شروع کر یں آپ رضی اللہ عنہ نے گھر والوں کو منع فرماتے ہوئے شفقت اور رحمت پر مشتمل یہ ارشاد فرمایا کہ اے اللہ ! اگر اس چور نے کسی شدید ضرورت و مجبوری کی وجہ سے یہ چوری کی ہے تو آپ اس کے لئے اس مال میں برکت پیدا فرمائیں اور اگر اس نے)
یہ چوری خوف خدا نہ ہونے اور گناہ پر جری ہونے کی وجہ سے کی ہے تو آپ اس کو توبہ کی توفیق دیتے ہوئے اس کی یہ چوری (چوری والا گناہ) آخری گناہ بنا دیں ۔ (ترمذی ج 2 ص 85) ۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام سراپا رحمت و شفقت ہے ایسے غصہ کے موقع پر ایسا معاملہ کرنا صرف صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی ذات سے ہو سکتا ہے ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کلام کا حاصل یہ ہوا کہ اگر یہ چور عادی چور ہے تو اے اللہ ! میں اپنا مال تو اسے معاف کرتا ہوں لیکن آپ سے درخواست ہے کہ اسے توبہ کی توفیق عطا فرما دیں اور یہ چوری اس کی آخری معصیت ہو اور اس کے بعد وہ نیک و صالح بن جائے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے صرف اپنا مال معاف کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ چور کے حق میں دعائے خیر بھی کی ۔ (محدث اعظم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد موسیٰ صاحب ؒ کی کتاب ترغیب المسلمین فی الرزق الحصل و طعمۃ الصالحین ً سے لیا گیا )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں