Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

گھر میں شوہر کی دلچسپی کب اور کیوں کم ہوتی ہے؟

ماہنامہ عبقری - فروری 2019ء

وہ کون سے عوامل ہیں جو شوہرحضرات کو گھر سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کچھ خواتین کی عادت ہوتی ہے بیماری کو اپنے اوپر حاوی رکھنے کی۔ کہیں خواتین گھریلو پریشانی سے تنگ آکر سارا غصہ بچوں کو مار کر نکالتی ہیں۔ اس شور شرابے، ہنگامے سے بچنے کے لئے بے چارے شوہر کو باہر پناہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔

 

کیا گھر سے دور رہنا بہترہے؟:اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر حضرات دفتری وقت کے علاوہ اپنا وقت اہلخانہ کے ساتھ گزارنے کی بجائے دوستوں یا اِدھر اُدھر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ خواتین کی طرح مرد حضرات بھی مختلف فطرت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ خواتین پر منحصر ہوتا ہے کہ انہوں نے گھر کا ماحول کسی قسم کا رکھا ہے۔ بعض گھرانوں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں کے مردوں کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور بعض جگہ شوہر دفتری وقت کے علاوہ دوستوں کے ساتھ یا اور کوئی مصروفیات نکال کر صرف سونے کے لئے گھر جاتے ہیں یعنی کہ وہ گھر کے ماحول سے گھبراتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ جتناگھر سے دور رہیں اچھا ہے۔چڑچڑی بہو کا کمال:کہیں مل جل کر رہنے کا رواج ہوتا ہے۔ کئی بھائی، بھابھیاں والدین کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایک نئی بہو آکر سارے خاندان میں ہلچل مچا دیتی ہے جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مارنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اسی طرح چڑچڑی بہو سب کو ناکوں چنے چبوادیتی ہے۔ نتیجتاً گھر کا سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے گھر کے مرد باہر سکون ڈھونڈتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ گھر کا ماحول کس قسم کا ہوگا۔ اگر دفتر سے جلدی گھر جانا پڑے تو وہ دوست احباب کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں جس گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہاں بیماریاں زیادہ پنپتی ہیں۔ سب لوگ ٹینشن زدہ ہوتے ہیں۔ کچھ مرد حضرات بیویوں کی آئے دن کے فرمائشی پروگرام سے پریشان رہتے ہیں۔ کچھ خواتین کو شاپنگ کا جنون ہوتا ہے بعض دفعہ وہ اس سلسلے میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں جس سے
گھر کے ماحول میں تنائو پیدا ہو جاتا ہے۔ شوہر کی روک ٹوک ایسی شاپنگ زدہ خواتین کوناساز گزرتی ہے۔ گھر کا ماحول خواب ہوتا ہے جس سے شوہر گھبرا کر باہر وقت زیادہ گزارنا پسند کرتا ہے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی کے نت نئے فرمائشی پروگرام کے لئے شوہر کو اوورٹائم بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرتا ہے کہ گھر کا خرچ پورا ہوسکے۔ اس کی وجہ سے ایسے شوہروں کو گھر گھر نہیں ایک سرائے خانہ لگتا ہے۔ چند گھڑی آرام کیا پھر کام پر نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ خواتین کو دعوتیں کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے روز روز پارٹیاں دعوتیں کرنے میں وہ اپنی شان سمجھتی ہیں۔ ان کے دوست احباب میکے والوں کی آمدو رفت ہر وقت رہتی ہے۔ شوہر سوچتا ہے کہ صبح کا تھکاہارا جب گھر جائوں گا تو گھر میں بھی آرام نہیں ملے گا اس سے اچھا باہر بیٹھ کر وقت گزارا جائے۔ اس سے تمام الجھن سے بچ جائیں گے۔ضرور کوئی گڑبڑ ہے!:مرد حضرات کو عادت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پورے دن کی روداد بیوی کو آکر سنائے۔ باہر کئی قسم کے مسائل ہوتے ہیں جن سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی پریشان بھی ہوتے ہیں کبھی خاموش۔ اب بیوی کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ وہ ٹوہ میں لگ جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں پکڑ ہوگی۔ کہیں شوہر ذرا ذرا سی بات اپنی بیوی کو بتاتے ہیں اس طرح کے شوہر سکون سے رہتے ہیں۔تلاشی جیب:اکثر بیویوں کو شوہر کی جیب کی تلاشی لینے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسی بیویوں کے شوہر چالاک ہوتے ہیں وہ اپنی بیوی کی عادت سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ جیب صاف کرکے گھر میں داخل ہوتے ہیںاگر غلطی سے بیوی کے ہاتھ کوئی چیز لگ جائے تو شوہر کی شامت آجاتی ہے۔ویک اینڈ میکے گزاروں گی:بیویوںکو ویک اینڈ میکے میں گزارنے کا جنون ہوتا ہے۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ میکے ضرور جائیں گی۔ اب پورے ہفتہ میں سخت کام اور ذہنی ٹینشن کے بعد جو چھٹی آتی ہے وہ شوہر کو اورتنہا کردیتی ہے۔ وہ بھی وقت گزارنے کے لئے باہر نکل جاتا ہے۔ کہیں ہر سال بچوں کے اضافے سے گھر گویا مچھلی مارکیٹ کا منظر پیش کرتا ہے۔ اسی شور شرابے سے بچنے کے لئے شوہر باہر نکل جاتے ہیں۔ کہیں بیوی کے میکے والوں کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے۔ شوہر بیچارہ کرکٹ کا بارہواں کھلاڑی لگتا ہے مجبوراً وہ باہر نکل جاتا ہے۔
گھومنے پھرنے کی آزادی: اکثر شوہروں کی شادی سے پہلے گھومنے پھرنے کی آزادی یا عادت شادی کے بعد بھی نہیں بدل سکتی۔ وہ گھر بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور وقت ملتے ہی دوست احباب میں ملنے چلے جاتے ہیں۔ انہیں گھر کے ماحول سےزیادہ باہر کے ماحول میں سکون ملتا ہے جو بھی وقت ملتا ہے وہ یار دوستوں میں بیٹھ کر گزارنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ کچھ شوہروں کو ویک اینڈ پر شکار کھیلنے کا بہت مزہ آتا ہے۔ دوست مل کر ایک جگہ جمع ہوکر کوئی کھیل کھیلتے ہیں یعنی انہیں فیملی سے الگ انجوائے کرنے میں مزہ آتا ہے۔ ان کی فیملی پورا ہفتہ انتظار میں رہتی ہے کہ چھٹی آئے گی ہم بھی کہیں جائیں گے مگر ایسے لوگ اپنی فیملی سے الگ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ بیوی کا پھوہڑپن: کہیں بیوی کی پھوہڑپن کی وجہ سے گھر ہر وقت بکھرا رہتا ہے، بچے بھی گندے پھر رہے ہوتے ہیں، کوئی چیز جگہ پر نہیں ملتی۔ شوہر کو دفتر جاتے ہوئے ایک ایک چیز خود ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ کبھی تنگ آکر بیوی کو اپنی اس پریشانی کا بتاتا بھی ہے مگر کوئی اثر نہیں پڑتا مجبوراً وہ خاموش رہتا ہے۔ اگر بیوی زبان دراز ہوتی ہے تو بات بات پر چیخنے لگتی ہے۔ کہیں شوہر بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ گھر گویا جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔شوہروں کی عادات بد: بعض شوہروں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی چیز جگہ پر نہیں رکھتے۔ دفتر سے آنے پر اور جانے کے بعد تمام استعمال کی اشیاء جگہ جگہ بکھری رہتی ہیں جس کو بیوی سمیٹتے سمیٹے تنگ آجاتی ہے مجبوراً وہ لڑنا شروع کردیتی ہے۔ دیر تک سونے کی عادت:بعض بیویوں کو کچھ زیادہ ہی سونے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ صبح دیر سے سوکر اٹھتی ہیں دوپہر کو لازمی سوئیں گی چاہے کچھ ہو جائے۔ چھٹی کے دن بھی سونا ضروری ہوگا۔ شوہر کو عادت نہیں ہوتی، وہ کیا کرے اس لئے گھر سے باہر دوستوں میں چلا جاتا ہے۔
عورت کی ازدواجی زندگی
سید اصغر محمود
ایک لڑکی اس وقت نہایت عجیب صورتحال کا شکار ہوتی ہے جب وہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر سسرال کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اور ماں باپ کا گھر بھی ہنسی خوشی نہیں بلکہ رسم دنیا موقعہ اور دستور کے تحت چھوڑتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ذات کسی اور کے حوالے کرتی ہے۔ اس موقعہ پر سسرال کا طرز عمل اس کی آئندہ زندگی پر اہم اثرات مرتب کرتے۔ وہ یہاں بھی اسی ماحول کی خواہشمند ہوتی ہے جو اس کے والدین کے گھر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ عمر کا ایک حصہ وہیں گزرتی ہے وہاں کے دکھ سکھ آسائش تکلیف رونقیں عزیز و اقارب اسے بار بار یاد آتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اگر سسرال کا تعاون حاصل ہوتو اس کے لئے خود کو اس ماحول میں ڈھالنا بہت آسان ہے۔ لیکن اگر صورتحال برعکس ہوتو وہ ہمیشہ دوچکی کے پاٹوں کے درمیان پستی رہتی ہے۔ اس طرح ساس وہ ماں کے روئیے کا تقاضا کرتی ہے۔ جو اپنے آپ کو ناجانے کسی بل بوتے پر برتر اور اعلیٰ سمجھتی ہیں اس لڑکی کو یہ باور کرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں کہ سسرال اور میکے میں بہت فرق ہے۔ اس کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی کو نوٹ کرکے طنزو تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ جبکہ میکے سے ملےن والے جہیز کو لوٹ کا مال سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو اور ملائم سمجھ کر کولہو کے بیل کی طرح کام کروایا جاتا ہے ایک اہم بات یہ کہ اس کی کبھی تعریف نہیں کی جاتی یہ المیہ درالمیہ ہے کہ کسی دوسرے کی خوبی اور اچھائی کو ماننے میں ہم ہمیشہ تامل کا شکار رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے جب تک کسی کو دل سے تسلیم نہ کیا جائے اور مانانہ جائے خوشگوار تعلقات پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں بعض شوہر حضرات بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شادی کرکے سب سے بڑا اور آخری عظیم کام انجام دے دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب ان کے تمام ذاتی کام اسی حوا کی بیٹی کے سر ہوں گے۔ جو محض بہو ہونے یک سزا بھگتتی ہے۔ مردوں کو اپنے سب حقوق پورا کروانے کا زعم ہوتا ہے اور وہ فرائض جو بیوی سے متعلق ہوتے ہیں ان کا کوئی ہوش نہیں ہوتا۔ذرا سوچئے۔ کہ ہم جو دین اسلام کے دعویدار سنتوں کے پاسدار حج و عمروں کے علمبردار خود کو باعمل مومن سمجھتے ہیں اپنے قول اور فعل میں اسقدر تضاد کیوں رکھتے ہیں۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 283 reviews.